• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 169681

    عنوان: ایك بیوی پانچ لڑكے اور تین لڑكیوں كے درمیان تقسیم وراثت

    سوال: جناب مفتی صاحب باپ کی وراثت میں (اس کے وفات ک بعد) چھوٹے ہوئے مال میں کس طرح بٹوارا کیا جائیگا۔جب کہ اس کے پرورش میں اس کی بیوی ۵ بیٹے ۳ بیٹیاں ۱ بھانجا ہو ۱۰۰ روپے میں سے بتائے کتنے کتنے روپے کس کس کے حصّے میں آئیں گے ۔(حوالہ بھی میل جائے قرآن اور حدیث کی روشنی میں یہ کوئی فتویٰ ہو اس متعلق تو مہربانی ہوگی)۔ شکریہ دوسرا مسئلہ اسی کڑی میں بتائیں: بٹوارے سے پہلے ہی بیٹیوں کی شادی ہو گئی ہو اور وہ بھی بہترین گھروں میں، جہاں انہیں مالی اعتبار سے کوئی کمی نہ ہو۔ اور جب بٹوارا کیا گیا تھا اس وقت بیٹیوں نے کوئی حصہ نہیں لیا تو بیٹیوں کی وفات کی بعد کیا اب اس کے وارث بٹوارے کا حصہ لینے کے لیے دعویٰ کر سکتے ہیں۔جبکہ ماں کی حیاتِ زِندگی میں کوئی بٹوارے کی مانگ نا کی گئی ہو۔ ماں کے وفات کے بعد اس کی اولادیں بٹوارے میں حصہ مانگ سکتے ہیں۔کیا یہ جائز ہوگا شکریہ۔ ہم آپ کے جواب کے منتظر ہیں۔

    جواب نمبر: 169681

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 772-681/B=08/1440

    صورت مذکورہ میں قرآن و حدیث کی روشنی میں مرحوم باپ کی زوجہ کو کل ترکہ کا آٹھواں حصہ ملے گا۔ قرآن میں ہے فإن کان لکم ولدٌ فلہن الثمن اور باقی ماندہ للذکر مثل حظ الأنثیین لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان تقسیم ہو جائے گا۔ علم فرائض کے حساب سے مرحوم باپ کا کل ترکہ 104 سہام پر تقسیم ہو گا جن میں سے آٹھواں حصہ یعنی 13 سہام زوجہ کو ملیں گے اور 14-14/ سہام پانچوں لڑکوں کو ملیں گے اور 7-7 سہام تینوں لڑکیوں کو ملیں گے۔

    لڑکیاں خواہ کتنی ہی مالدار ہوں، مالدار گھرانے میں ان کی شادی ہوئی ہو پھر بھی وہ باپ کی جائیداد میں حقدار ہوں گی اور انہیں ان کا حصہ لازمی طور پر دیا جائے گا۔ ان کے مطالبہ نہ کرنے سے ان کا حق ساقط نہ ہوگا اگر ان کو ان کا حق نہ دیا گیا تو ان کی اولاد اپنی ماں کا حق مانگ سکتے ہیں اور انہیں دینا ہوگا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند