معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 168170
جواب نمبر: 168170
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:537-47T/L=6/1440
مذکورہ بالا صورت میں اگر چودھری صاحب نے قانونی مجبوری کی بنا پر زمین اپنی اہلیہ کے نام کی تھی تو محض نام کی وجہ سے بیوی اس زمین کی مالک نہیں ہوئی اور مرحوم کی وفات کے بعد وہ زمین ترکہ ہوگئی اور تمام ورثاء کا اس میں مشترک حصہ ہے، اور مشترک ملک میں ایک یا دو آدمیوں کا وقف کرنا خاص طور پر جب کہ وقف مسجد کے لیے ہو درست نہیں، اگر تمام ورثاء اس وقف پر راضی نہیں ہیں تو ان کو چاہیے کہ اپنے درمیان اس مشترک زمین کو حسب حصص شرعیہ تقسیم کرلیں، مشترک زمین کا نہ وقف درست ہوا اور نہ ہی اس کی آمدنی کا مسجد میں استعمال درست ہوا ہے۔
(۲) وقف کا علم ہونے کے بعد دوسرے ورثاء کا خاموش رہنا رضا کی دلیل نہیں ہے؛ لأنہ ینسب إلی ساکت قول․
قال: ”ووقف المشاع جائز عند أبي یوسف“ لأن القسمة من تمام القبض والقبض عندہ لیس بشرط فکذا تتمتہ․ ”وقال محمد: لا یجوز“ لأن أصل القبض عندہ شرط فکذا ما یتم بہ، وہذا فیما یحتمل القسمة، وأما فیما لا یحتمل القسمة فیجوز مع الشیوع عند محمد أیضا لأنہ بعتبر بالہبة والصدقة المنفذة إلا في المسجد والمقبرة فإنہ لا یتم مع الشیوع فیما لا یحتمل القسمة أیضا عند أبي یوسف ․ (الہدایة: ۲/۶۳۸) وفی فتح القدیر: اتفقوا علی منع وقف المشاع مطلقا مسجدا ومقبرة․ (فتح القدیر للکمال ابن الہمام: ۵/ ۴۲۶) وقال في البحر الرائق: والحاصل أن وقف المشاع مسجدا أو مقبرة غیر جائز مطلقا اتفاقا وفی غیرہما إن کان مما لا یحتمل القسمة جاز اتفاقا. والخلاف فیما یحتملہا ومن أخذ بقول أبی یوسف فی خروجہ بمجرد اللفظ وہم مشایخ بلخ أخذ بقولہ فی ہذہ ومن أخذ بقول محمد فی القبض وہم مشایخ بخاری أخذ بقولہ فی وقف المشاع وصرح فی الخلاصة من الإجارة والوقف بأن الفتوی علی قول محمد فی وقف المشاع وکذا فی البزازیة والولوالجیة وشرح المجمع لابن الملک وفی التجنیس وبقولہ یفتی وتبعہ فی غایة البیان․ (۵/۳۲۹)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند