• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 167811

    عنوان: والد اور اولاد كے كاروبار كی تقسیم سے متعلق چند سوالات

    سوال: سوال: میرے والد کل چار بھائی جن میں سے ایک کا انتقال ہو چکا ہے ، دادا کے انتقال کے وقت والد کی عمر۵۲ سال ، دوسرے بھائی کی عمر۲۱ سال ، تیسرے بھائی کی عمر۸ سال اور چوتھے بھائی کی عمر۶سال تھی . دیگر ۵ بہنیں تھیں ، اس وقت والد اور دو بہنوں کی شادی ہو چکی تھی بعد میں والد نے باقی بہنوں اور ۲ بھایئوں کی شادی کی، چوتھے بھائی نے اپنی مرضی سے شادی کی- دادی باحیات تھیں اور انکا انتقال ۷۰۰۲ میں ہوا اور وہ والد کے ساتھ ہی تھیں - دادا کا کاروبار انڈیا اور نیپال میں تھا- نیپال کا کاروبار وہ خود دیکھتے تھے اور انڈیا والد دیکھتے تھے - نیپال کی انہونے شہریت نہیں لی تھی اس وجہ سے وہاں کا کاروبار اور زائیداد انہونے اپنے بھتیجے کے نام کر رکھا تھا اور وہی اسکی دیکھ بھال کرتے تھے - کچھ سالوں بعد کچھ لوگوں نے کاروبار پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو والد نے اپنے دوسرے بھائی جو کی اس وقت زیرے تعلیم تھے تعلیم روک کر نیپال منتقل کر دیا اور وہ وہاں کا کاروبار اور زائیداد دیکھنے لگے مگر زائیداد ابھی دادا کے بھتیجے کے نام ہی تھی کیوں کی والد کے دوسرے بھائی کی نیپال کی شہریت نہیں تھی - شہریت بننے کے بعد زائیداد منتقل کرنے میں دادا کے بھتیجے ٹال مٹول کرنے لگے - اس دوران انلوگوں نے جنہونے کاروبار پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تھی انہونے انکو ورگلایا اور دباؤ بنا کر زائیداد فروخت کرا دی- والد اور انکے بھایئوں نے مل کر کسی طرح فروخت قیمت کا زیادہ تر حصّہ انسے حاصل کر لیا اور اسی رقم اور اس میں نیپال کے کاروبار سے رقم ملاکر وہ زائیداد دوسرے بھائی کے نام خرید لی گی، کیوں کہ ان کی شہریت وہاں کی تھی - کافی سالوں تک سب مشترکہ چلتا رہا - اس دوران انڈیا کا کاروبار ختم ہو گیا اور ایک زائیداد جو کی کانپور انڈیا میں تھی جس کو والد نے ہی خریدا تھا اس کو بیچنا پڑا ، اس رقم کو والد نے اپنے بھایئوں کو کاروبار کے لئے دی ، اپنے کچھ قرض ادا کئے اپنی چھوٹی بہن اور اپنی بڑی بیٹی کی شادی میں استعمال کی - والد کے دیگر دوبھایئوں نے بھی کچھ وقت نیپال کے کاروبار میں لگایا اور ہمارے ۲ بھائی ۳۱ سال تک نیپال کے کاروبارمیں لگے رہے اسی دوران وہاں پرانے مکان اور دکان کو منہدم کر کے نیا مکان اور دکان بنا - درمیان میں والد کے دوسرے بھائی کی فیملی بھی نیپال منتقل ہو گی لیکن عید اور دوسرے رسومات انڈیا میں سالوں مشترکہ مناتے رہے - ہمارے والد کے دوسرے بھائی کی نیت بدلنے لگی ، ان کا رویہ میرے چھوٹے بھائی جس نے سب سے زیادہ وقت کاروبار کو دیا اچھا نہیں تھا- اس کا اندازہ لگنے پر بھایئوں نے قرض لکیر اور کچھ ہماری مدد سے الگ کاروبار شروع کر لیا جو آج الحمدولللہ بہت کامیاب ہیں- اس کے بعد والد کے دوسرے بھائی نے نیپال کی زائیداد جو ان کے نام تھی اپنی اہلیہ کے نام منتقل کر دیا اسکے لئے انہونے اپنے چھوٹے دوبھایئوں کو نیپالی قانون ، ٹیکس بچت اور کچھ ان کی مالی مدد کر کے یا آگے کرنے کا وعدہ کرنے کا حوالہ دیکر کر لیا- جو کہ انہونے کبھی نہیں کیا ان کے بھائی کا انتقال کینسر سے ہوا مگر انہوں نے کچھ مدد نہیں کی- جائیداد منتقل کے عمل میں انہوں نے اپنے بڑے بھائی کو شامل نہیں کیا- ہمارے والد اس پر قانونی دعوی کرنا چاہتے تھے لیکن ہم بھایئوں نے انہیں ایسا نہ کرنے دیا- اب وہ انڈیا کی جائیداد میں اپنا حصّہ چاہتے ہیں جس کی مالیت نیپال کیا جائیداد اور کاروبار جو انہوں نے اپنے نام کرلی ہے اس سے کافی کم ہے -ہمارے والد کی عمر۵۷ سال کے قریب ہو چکی ہے اور وہ لا علاج بیماری میں مبتلا ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ گھریلو معاملات ان کی حیات میں حل ہو جائیں۔ اس لئے بالا اندراجات کی روشنی میں مندرجہ ذیل سوالات کے شرعی جوابات فراہم کرنے کی زحمت کریں: ۱- ہمارے والد کے دوسرے بھائی کا نیپال کی جائیداد کو اپنی اہلیہ کے نام منتقل کرنا درست ہے ؟ ۲ - کیا نیپال کی جائیداد میں دوسرے بھائیوں کا حق نہیں ہے ؟ ۳- کیا ہم بھائیوں نے اپنے روزگار اور اپنی ملازمت سے جو جائیداد انڈیا اور نیپال میں بنایا ہے ان پر والد کے بھایئوں کا بھی حق ہے ؟ ۴- کیا ہمارے والد کے دوسرے بھائی کا انڈیا کی جائیداد پردعوی درست ہے جب کہ نیپال میں اس سے زیادہ مالیت کی جائیداد اور کاروبار وہ اپنے نام کر چکے ہیں؟ ۵- کیا دونوں جگہ کی جائیداد پر والد کی بہنوں کا کیا حق ہے ، والد اور ہم بھائیوں نے ان لوگوں کا پورا خیال رکھا ہے اور جن کی ضرورت میں ان کے حق سے زیادہ مدد کی ہے اور انشالاللہ آگے بھی کرتے رہیں گے ۔

    جواب نمبر: 167811

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:430-47T/sn=5/1440

    سوال میں مذکور تفصیل سے اندازہ ہوتا ہے کہ اصل کاروبار آپ کے دادا مرحوم کا تھا، ان کی زندگی میں وہ خود اپنے بیٹوں کے تعاون سے کاروبار چلاتے تھے ، ان کے انتقال کے بعد ان کے بیٹوں نے کاروبار کو آگے بڑھایا اور اخراجات بھی مشترک ہوتے رہے ، آپ کے والد چونکہ بھائیوں میں بڑے تھے ؛ اس لئے ان کی کوشش اور محنت اِس سلسلے میں زیادہ رہی، اگر واقعہ بھی یہی تو آپ کے سولات کے جوابات درج ذیل ہیں:

    (۱،۲) آپ کے دادا مرحوم نے جو کچھ جائداد بہ وقت وفات چھوڑی ہے وہ، اسی طرح ان کے انتقال کے بعد ان کے بیٹوں نے مل کر اس کاروبار سے جو کچھ کمایا سب میں دادا کے جملہ وارثین یعنی ان کے تمام بیٹے بیٹیاں شریک ہیں ؛لہذا آپ کے والد کے دوسرے بھائی کا نیپال کی جائیداد کو اپنی بیوی کے نام کرکے اس پر تنہا قابض ہوجانا شرعا جائز نہیں ہے ، اس میں دیگر بھائی بہنوں کا بھی حق ہے ۔

    (۳) آپ بھائیوں نے اپنی ملازمت اور اپنے علاحدہ کاروبار سے جو کچھ کمایا ہے اس میں آپ کے چچاؤوں کا کوئی حق نہیں ہے ، اس کے مالک آپ لوگ خود ہیں۔

    (۴) سوال نمبر (۱) کے جواب میں تفصیل گزر چکی ہے کہ آپ کے دادا مرحوم کی چھوڑی ہوئی اسی طرح آپ کے والد اور چچاؤں نے ان کے کاروبار کو ترقی دے کر جو کچھ کمایا ہے سب میں دادا کے تمام بیٹے بیٹیوں کا حق ہے ، کسی بیٹے کا کسی بھی جائداد میں تنہا حق نہیں ہے ، دادا کے تمام ورثا کو آپس میں بیٹھ کر شریعت کے مطابق جائداد کی تقسیم کر لینی چاہئے ، آ پ کے ایک چچا کا انتقال کب ہوا، والدہ سے پہلے یا بعد میں؟ انھوں نے بہ وقت وفات اپنی بیوی بچوں میں سے کسی کو چھوڑا ہے یا نہیں ؟ ان امور کی تفصیل لکھنے پر یہ لکھا جا سکتا ہے کہ آپ کے والد، چچاؤں اور پھوپیوں کے درمیان دادا مرحوم کا ترکہ کس تناسب سے تقسیم ہوگا۔

    (۵) جی ہاں !دونوں جگہوں کی جائداد میں آپ کے والد کی تمام بہنوں کا بھی حق ہے ، بہنوں کو بھائیوں کے بالمقابل آدھا ملے گا، آپ کے والد اور آپ لوگوں نے ان پر اب تک جو کچھ خرچ کیا ہے یہ آپ لوگوں کی طرف سے تبرع شمار ہوگا، اس کا ان شاء اللہ آخرت میں آپ لوگوں کو بڑا اجر ملے گا؛لیکن اس کی وجہ سے وراثت سے ان کا حق ساقط نہ ہوگا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند