معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 167137
جواب نمبر: 167137
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:342-337/L=4/1440
زندگی میں تو والد صاب اپنی جائیداد کے تنہا مالک ہیں اور اس میں ان کو تنہا بیچنے ہبہ کرنے وغیرہ کا اختیار ہے ان کی حیات تک بچوں کا ان کی جائیداد وغیرہ میں کوئی حصہ نہیں ہوتا ؛البتہ اگر والدین اولاد کو ہبہ کرتے ہیں تو ہبہ میں اولاد کے درمیان مساوات(برابری) سے کام لینا مستحب ہے ،صورتِ مسئولہ میں اگر آپ کووالد صاحب اس سے پہلے اسی قدر یا کچھ کم وبیش رقم دے چکے ہیں تو پھر آپ کو اشکال نہ کرنا چاہیے ؛البتہ اگر آپ کورقم کم ملی ہے تو والد صاحب کو چاہیے کہ آپ کو بھی اتنی رقم اور دیدیں جس سے اولاد کے درمیانی برابری ہوجائے اور آپ کی دل شکنی نہ ہو۔
قال الحافظ ابن حجر رحمہ اللّٰہ تعالی نقلاً عن الامام أحمد رحمہا اللّٰہ تعالی: یجوز التفاضل ان کان لہ سبب کأن یحتاج الولد لزمانتہ ودینہ أو نحو ذلک دون الباقین وقال أبویوسف رحمہ اللّٰہ تعالی تجب التسویة ان قصد بالتفضیل الاضرار ، ونقل عن الجمہور: أن التسویة مستحبة الخ۔ (فتح الباري: ۵/ ۲۱۴، باب الہبة للولد، ط: دار المعرفة، بیروت)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند