معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 162786
جواب نمبر: 162786
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 1336-1242/L=11/1439
زندگی کے اندر جائداد کی تقسیم، ہبہ و عطیہ ہے۔ ہبہ او رعطیہ کے درمیان برابری مستحب ہے لیکن اگر کسی بچے کو اس کے نیکو کار یا محتاج ہونے کی نباہ پر کچھ اضافہ کردیا جائے تو شرعاً اس کی بھی گنجائش ہے بشرطیکہ دوسری اولاد کو نقصان پہنچانا مقصود نہ ہو ۔ یہ مسئلہ زندگی سے متعلق ہے جہاں تک مرنے کے بعد میراث کا مسئلہ ہے تو مرنے کے بعد لڑکے کو دو حصے اور لڑکی کو ایک حصہ ملتا ہے اور جہاں تک سوال نمبر ۲ - ۳/ کا تعلق ہے تو اگر آپ نے اپنے لڑکے کی طرف سے قرض ادا کردیا یا لون کی قسط وغیرہ پھر دل تو یہ آپ کی طرف سے تبرع و احسان ہوا بشرطیکہ آپس میں قرض وغیرہ کا کوئی معاملہ نہ ہوا ہو۔ اگر آپ زندگی میں اپنی جائداد وغیرہ تقسیم کرنا چاہتے ہیں تو اتنی مقدار رقم آپ اپنے اس لڑکے کے حصے سے وضع کرسکتے ہیں البتہ اگر یہ پیسے اس کے حصے سے زائد ہوں تو زائد پیسوں کا مطالبہ کرنا درست نہ ہوگا کیونکہ یہ آپ کی طرف سے تبرع ہے جس کا مطالبہ درست نہیں۔ تنعقد الہبة بالایجاب والقبول وتتم بالقبض الکامل لأنہا من التبرعات والتبرع لایتم الا بالقبض (شرح المجلہ لسلیم رستم باز، ص: ۴۱۴، ط: مکتبہ: حنفیہ ، کوئٹہ) ولو وہب رجل شیئا لأولادہ فی الصحة واراد تفضیل البعض علی البعض عن ابی حنیفة رحمہ اللہ تعالیٰ لاباس بہ إذا کان التفضیل لزیادة فضل لہ فی الدین وإن کانا سواء یکرہ وروی المعلی عی ابی یوسف رحمہ اللہ أنہ لا باس بہ إذا لم یقصد بہ الاضرار وإن قصد بہ الاضرا سوی بینہم وہو المختار (فتاوی ہندیہ: ۴/۳۹۱، ط: رشیدیہ)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند