• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 162786

    عنوان: میرے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے ان سب کو کس طرح حصہ دینا چاہئے؟

    سوال: (۱) میرے بڑے بیٹے نے میرے بھتیجے کے پیسوں کی ضمانت لی تھی مجھ سے بنا پوچھے، اور میرا بھتیجا بھاگ گیا، تو میں نے اپنے بیٹے کو اپنی پراپرٹی بیچ کر پیسہ دیا وہ قرض چکانے کے لئے، ہمارا پریوار اُس وقت ایک ساتھ ہی رہتا تھا، کیا وہ پیسہ اس کے حصے میں جوڑنا چاہئے یا نہیں؟ (۲) میرے بیٹے نے اپنا ذاتی قرض چکانے کے لئے ہمارے گھر پر لون لیا اور بولا کہ اس کی قسط میں دوں گا، اور اب وہ قسط نہیں دے رہا ہے، تو کیا مجھے لون کا پیسہ اس کے حصے میں جوڑنا چاہئے یا نہیں؟ (۳) اگر ضمانت کا پیسہ اور لون کا پیسہ ملاکر اس کے حصے سے زیادہ ہو رہا ہو تو کیا اس سے پیسے لینے چاہئے؟ (۴) میرے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے ان سب کو کس طرح حصہ دینا چاہئے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں بتائیں۔

    جواب نمبر: 162786

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 1336-1242/L=11/1439

    زندگی کے اندر جائداد کی تقسیم، ہبہ و عطیہ ہے۔ ہبہ او رعطیہ کے درمیان برابری مستحب ہے لیکن اگر کسی بچے کو اس کے نیکو کار یا محتاج ہونے کی نباہ پر کچھ اضافہ کردیا جائے تو شرعاً اس کی بھی گنجائش ہے بشرطیکہ دوسری اولاد کو نقصان پہنچانا مقصود نہ ہو ۔ یہ مسئلہ زندگی سے متعلق ہے جہاں تک مرنے کے بعد میراث کا مسئلہ ہے تو مرنے کے بعد لڑکے کو دو حصے اور لڑکی کو ایک حصہ ملتا ہے اور جہاں تک سوال نمبر ۲ - ۳/ کا تعلق ہے تو اگر آپ نے اپنے لڑکے کی طرف سے قرض ادا کردیا یا لون کی قسط وغیرہ پھر دل تو یہ آپ کی طرف سے تبرع و احسان ہوا بشرطیکہ آپس میں قرض وغیرہ کا کوئی معاملہ نہ ہوا ہو۔ اگر آپ زندگی میں اپنی جائداد وغیرہ تقسیم کرنا چاہتے ہیں تو اتنی مقدار رقم آپ اپنے اس لڑکے کے حصے سے وضع کرسکتے ہیں البتہ اگر یہ پیسے اس کے حصے سے زائد ہوں تو زائد پیسوں کا مطالبہ کرنا درست نہ ہوگا کیونکہ یہ آپ کی طرف سے تبرع ہے جس کا مطالبہ درست نہیں۔ تنعقد الہبة بالایجاب والقبول وتتم بالقبض الکامل لأنہا من التبرعات والتبرع لایتم الا بالقبض (شرح المجلہ لسلیم رستم باز، ص: ۴۱۴، ط: مکتبہ: حنفیہ ، کوئٹہ) ولو وہب رجل شیئا لأولادہ فی الصحة واراد تفضیل البعض علی البعض عن ابی حنیفة رحمہ اللہ تعالیٰ لاباس بہ إذا کان التفضیل لزیادة فضل لہ فی الدین وإن کانا سواء یکرہ وروی المعلی عی ابی یوسف رحمہ اللہ أنہ لا باس بہ إذا لم یقصد بہ الاضرار وإن قصد بہ الاضرا سوی بینہم وہو المختار (فتاوی ہندیہ: ۴/۳۹۱، ط: رشیدیہ)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند