• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 161296

    عنوان: سوتیلی والدہ کے نام مکان کا حکم؟

    سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان کرام ! ہم تین بھائی اور دو بہن ہیں ۔ہمارے والد کا انتقال ہوچکا ہے والد نے کچھ رقم اور ایک فلیٹ اپنے ترکہ میں چھوڑا ۔ اس فلیٹ کی رجسٹری والدہ کے نام سے تھی۔یعنی یہ مکان والدہ کے نام سے خریدا گیا تھا۔ دوسری جانب ہمارے والد مرحوم نے دوسری شادی کی تھی ۔جن سے کوئی اولا دنہیں ہے ۔ہم دس سال پہلے اپنی (سوتیلی)والدہ کو اپنے گھر میں لے آئے تھے وہ ہمارے ساتھ ہی رہتی ہیں ۔(سگی ) والدہ کے انتقال کے بعد ہم نے والدہ کا چھوڑا ہوا بینک اکانٹ کا پیسہ اپنی (سوتیلی)ماں کو دے دیا تھا ، اور ساتھ ساتھ ان کا نان نفقہ بھی ہم دیتے رہے ۔ اب ہم وہ گھر بیچنا چاہتے ہیں لیکن ہماری (سوتیلی)ماں کا کہنا ہے کہ مکان مت بیچو، در یافت یہ کرنا ہے کہ : ۱۔ کیا سوتیلی ماں کا باپ کے ترکہ میں حصہ ہے یا نہیں ؟ ۲۔ حصہ دینے کے بعد کیا اُس ماں کا نان نفقہ ہمارے ذمہ ہے ؟ ۳۔ اور ما ل کی تقسیم تین بھائی اور دو بہنوں کے درمیان کیسے ہوگی؟ براہ کرم وضاحت فرمائیں ۔ جزاکم اللہ خیر الجزاء

    جواب نمبر: 161296

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1051-943/H=8/1439

    (۱) اگر مرنے والا اپنی اولاد چھوڑتا ہے تو اس مرحوم کے ترکہ میں اُس کی بیوہ (آپ کی سوتیلی والدہ) آٹھویں حصہ کی حق دار ہوتی ہے۔

    (۲) اس بیوہ کے پاس اگر مال وجائداد وغیرہ اس کی ملکیت میں ہے خواہ وہ شوہر مرحوم کے ترکہ سے ملا ہو یا کسی اور طرح سے بیوی کی ملکیت میں آیا ہو تو ایسی صورت میں بیوی کا نان نفقہ سوتیلی اولاد کے ذمہ واجب نہیں، البتہ سوتیلی والدہ کے ساتھ حسن سلوک ادب واحترام بہرصورت لازم ہے۔

    (۳) آپ کے والد مرحوم نے اپنی وفات کے وقت ایک بیوی تین بیٹے دو بیٹیاں چھوڑیں تو اس کا حکم یہ ہے کہ بعد ادائے حقوق متقدمہ علی المیراث والدِ مرحوم کا کل مالِ متروکہ چونسٹھ حصوں پر تقسیم کرکے آٹھ حصے مرحوم کی بیوی (آپ کی سوتیلی والدہ) کو اور چودہ چودہ حصے تینوں بیٹوں کو اور سات سات حصے دونوں بیٹیوں کو ملیں گے۔

    بیوی = ۸

    بیٹا = ۱۴

    بیٹا = ۱۴

    بیٹا = ۱۴

    بیٹی = ۷

    بیٹی = ۷

    نوٹ: فلیٹ کی رجسٹری والد مرحوم نے آپ کی سوتیلی والدہ کے نام کی تھی تو مرحوم نے وہ مکان ہبہ کیا تھا یا مہر میں دیا تھا یا کوئی اور صورت پیش آئی تھی؟ اس کو صاف صحیح واضح لکھ کر دوبارہ سوال کریں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند