• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 161017

    عنوان: دادا کی وراثت میں یتیم پوتے کا حصہ کیوں نہیں ہے؟

    سوال: میرے رشتے دار ہے جن کے والد کا انتقال ان کے دادا کی وفات سے پہلے ہوا اور پھر بہت عرصہ بعد دادا فوت ہو گیا اب دادا کی وراثت میں یتیم پوتے کا حصہ کیوں نہیں ہے ؟ اس کی کوئی وجہ یا دلیل بتا دیں؟

    جواب نمبر: 161017

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1055-97t/L=8/1439

    پوتا علی الاطلاق محروم نہیں ہوتا بلکہ اس وقت محروم ہوتا ہے جبکہ دادا کی مذکر اولاد موجود ہو اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ شریعت نے ترکے کی تقسیم میں اقرب فالاقرب کا اعتبار کیا ہے ، ترکہ کی تقسیم میں وارثین کے محتاج ہونے یا نہ ہونے کو معیار نہیں بنایا گیا ہے؛ اس لئے کہ یہ ایسا معیار ہے کہ جس کو طے کرنا کسی کے بس میں نہیں ہے؛ کیوں کہ ممکن ہے کہ ایک باپ کی دو اولادوں میں سے ایک بظاہر بہت مالدار ہو اور دوسرا فقیر ہو، تو اب باپ کا ترکہ ایک بیٹے کو دیا جائے اور دوسرے بیٹے کو نہ دیا جائے، یہ بات بجائے خود قابل اشکال ہوگی، پھر حاجت مند ہونے کے درجات بھی مختلف ہیں، ممکن ہے کہ کوئی وارث زیادہ ضرورت مند ہو اور کوئی کم ہو یا کوئی زیادہ ضرورت کا اظہار کرے اور دوسرے وارث اسے تسلیم کرنے کو تیار نہ ہوں، تو تقسیم ترکہ کے وقت ایسے نزاعات پیدا ہوں گے جنہیں حل کرنے کی کوئی صورت نہ ہوگی ؛اس لئے شریعت نے قانونی طور پر فقر واحتیاج کو معیار نہیں بنایا؛ بلکہ قوت قرابت کو معیار بنایا ہے، یعنی جب میت کے متعدد عصبہ رشتہ دار موجود ہوں تو جس کا رشتہ میت سے زیادہ قریب ہوگا وہ وراثت کا مستحق قرار پائے گا اور اقرب کی موجودگی میں قریب کو قانوناً محروم کردیا جائے گا۔اللہ رب العزت نے ورثاء اور ان کے احوال وسہام کی تفصیل بتانے کے بعد واضح انداز میں فرمادیا ہے :آباء کم وأبناء کم لاتدرون أیہم أقرب لکم نفعاً،فریضة من اللہ ان اللہ کان علیما حکیما”تمہارے باپ دادا اور بیٹے تم نہیں جانتے کہ نفع رسانی کے لحاظ سے کون سا رشتہ تم سے زیادہ قریب ہے (اللہ تعالی کی حکمتِ بالغہ ہی اس کا فیصلہ کرسکتی ہے)اللہ تعالی نے یہ حصے ٹھہرادیے ہیں اور وہ (اپنے بندوں کی مصلحت کا) جاننے والا ہے(اپنے تمام احکام میں) حکمت والا ہے“۔

    حاصل یہ ہے کہ قریب کا تعلق بعید کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے ،شاخ کا حق پہلے ہے ،شاخ در شاخ کا بعد میں،بیٹا چونکہ پوتے کے مقابلہ میں اقرب ہے؛ اس لئے اصولاً وہی مستحق وراثت ہے؛ البتہ اگر میت کے وفات کے وقت اس کا کوئی بیٹا حیات نہ رہتا اور پوتے پوتیاں حیات رہتے تو یہی پوتے پوتیاں اس کے وارث بنتے؛ کیوں کہ اب ان سے اقرب کوئی موجود نہیں، یہ تو قانونی اور اصولی بات ہے، جس کو پیش نظر رکھے بغیر تقسیم ترکہ کا نظام قائم نہیں رہ سکتا؛البتہ ایسی صورت میں اخلاقی طور پر میں دادا کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پوتوں کی گذر بسر کے لئے کوئی انتظام کرکے جائے خواہ وہ رجسٹرڈ وصیت کی شکل میں ہو یا زندگی میں ہبہ کے ذریعہ ہو، نیز چچا کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اپنے بھتیجوں اور بھتیجیوں کے ساتھ شفقت وہمدردی اور ایثار کا معاملہ کرے، اور یتیموں کی کفالت کے متعلق جو بشارتیں آئیں ہیں ان کا مستحق بنے، اب بالفرض اگر کوئی دادا یا چچا ان بچوں کے حقوق کا خیال نہ کرے تو یہ اس کی اپنی کوتاہی ہوگی، ان کے اس رویہ کی بنا پر شریعت کے اصول پر انگلی اٹھانا ہرگز درست نہیں ہے۔

    عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ألحقوا الفرائض بأہلہا فما بقي فہو لأولی رجل ذکر۔ (صحیح البخاري ۲/۹۹۷)

    وقد ذکر الإمام أبوبکر جصاص الرازي رحمہ اللّٰہ في أحکام القرآن، والعلامة العیني في عمدة القاري: الإجماع علی أن الحفید لا یرث مع الابن۔ (تکملة فتح الملہم ۲/۱۸)

    ولو کان مدار الإرث علی الیتم والفقر والحاجة لما ورث أحد من الأقرباء والأغنیاء، وذہب المیراث کلہ إلی الیتامیٰ والمساکین … وأن معیار الإرث لیس ہو القرابة المحضة ولا الیُتم والمسکنة، وإنما ہو الأقربیة إلی المیت۔ (تکملة فتح الملہم ۲/۱۷-۱۸)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند