• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 160541

    عنوان: کاغذی تملیک کے بغیر عطاء

    سوال: (1) فواد شاہ من لاہور ۔ سوال ٹیکس سے بچنے کے لیے باپ گاڑی اور جائیداد بچوں کے نام لگوا دیتا ہے لیکن وراثت یا تملیک کی نیت نہیں ہوتی۔ کیا اس کی وفات کے بعد جائیداد و گاڑی میں شرعی تقسیم ہوگی؟ (2) اسی طرح باپ ایک گھر ایک بیٹے (بالفرض زید) کو دیتا ہے اور نام بھی کروا دیتا ہے اور وہ بچہ اس میں رہنے بھی لگ جاتا ہے ۔ اور باپ کہتا ہے کہ دوسرا گھر میں زید کا حصہ نہیں یہ اب وہ باقی دو بیٹوں (بکر اور عامر ) کا ہے اور خود باپ اس گھر میں بکر اور عامر کے ساتھ رہتا ہے لیکن اس گھر کو باپ اپنے ہی نام رہنے دیتا ہے بکر اور عامر کے نام نہیں کراتا۔ کیا اس دوسرے گھر میں باپ کی وفات کے بعد زید کا شرعی حصہ ہے یا نہیں؟

    جواب نمبر: 160541

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:792-110/D=8/1439

    (۱) باپ کے کسی مصلحت سے گاڑی یا جائیداد لڑکے کے نام کرادینے سے لڑکا اس گاڑی یا جائیداد کا مالک نہیں ہوتا پس مذکورہ چیزیں والد ہی کی ملکیت میں رہیں گی اور والد کے انتقال کے بعد والد کا ترکہ بن کر تمام ورثاء شرعی کے درمیان تقسیم ہوں گی، صرف نام کرانے سے ملکیت منتقل نہیں ہوتی بلکہ مالک بناکر دینے یعنی ہبہ کرنے کے ساتھ مکمل قبضہ دخل بھی دینا ضروری ہوتا ہے۔

    (۲) جب باپ نے بیٹے (زید) کو مکان دیدیا نام بھی کردیا زید اس میں رہنے لگا تو ہبہ کے ساتھ قبضہ بھی زید کا ہوگیا پس زید اس مکان کا مالک ہوگیا لیکن اس کی وجہ سے دوسری چیزوں مکان وغیرہ سے اس کا حق وراثت ختم نہ ہوگا اور باپ کے اس کہنے سے بھی کہ ”دوسرے مکان میں زید کا حصہ نہیں“ زید کا حصہ وراثت دوسرے مکان سے ختم نہ ہوگا، اور دوسرا مکان جس میں باپ خود رہ رہا ہے ”بکر اور عامر کا ہے“ کہنے سے بکر اور عامر اس کے مالک نہ ہوں گے کیونکہ ہبہ مکمل ہونے کے لیے قبضہ شرط ہے وہ یہاں نہیں پایا گیا بلکہ وہ باپ ہی کی ملکیت رہے گا اور باپ کے انتقال کے بعد ترکہ بن جائے گا جس میں اس کے سب ورثہ حصہ دار ہوں گے زید بھی حصہ دار ہوگا۔ البتہ زید جو صورت حال سے واقف ہے وہ دیانةً اپنے حصہ سے بکر اور عامر کے حق میں دستبردار ہوجائے تو بہتر ہے تاکہ والد مرحوم کا منشا پورا ہوجائے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند