• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 155979

    عنوان: وراثت کی جائداد میں حلال حرام کی تمیز

    سوال: شریعت کی روشنی میں آپ سے وراثت کے مال میں حلال حرام کی تمیز کے بارے میں سرپرستی چاہیے جس کی تفصیل مندرجہ زیل ہے ؛ - عبدالقیوم واپڈا (محکمہ بجلی) میں سرکاری افسر تھا۔ اس نے دوران ملازمت کافی جائداد بنائی ، عبدالقیوم کی پدری جائداد بھی کافی موجود تھی ۔ عبدالقیوم کے فوت ہونے کے بعد جائداد ورثاء میں تقسیم ہوئی وراثت میں ایک کھوٹی شیراز کو ملی ۔ شیراز نے والدہ سے کھوٹی بنانے کا ذریعہ معاش دریافت کیا کہ یہ پدری جائداد اور تنخواہ کے پیسوں سے بنی یا کمیشن(حرام) پیسوں سے ۔ والدہ نے بتایا کہ میری شادی سے پہلے تمہارے والد(عبدالقیوم ) نے ٹرک خریدے تھے جن کی قیمت کا مجھے علم نہیں کہ پدری جائداد سے ادا کی تھی یا تنخواہ سے یا کمیشن کے پیسوں سے ، پھر شادی کے بعد ۵۰ سال پہلے تمہارے والد نے بہت ہی سستے دام میں چند پلاٹ خریدے اس وقت تمہارے ۔ والد گا ذریعہ معاش ٹرک کی آمدنی ، تنخواہ اور کمیشن کے پیسے تھے لیکن مجھے علم نہیں کہ پلاٹ کی رقم کن پیسوںُ سے ادا کی تھی پھر ۲۰ سال بعد ایک پلات پر ۵ لاکھ میں کھوٹی بناء ۔ ۵ لاکھ کی تفصیل یوں ہے ؛ ا- ایک لاکھ بینک سے قرضہ لیا، ۲- ایک لاکھ مندرجہ بالا پلاٹوں میں سے ایک پلاٹ فروخت کر کے ، ۳- تین لاکھ تنخواہ یا کمیشن کے پیسے یا دونوں ملا کر جس کا علم نہیں اور اگر دونوں آمدنی ملا کر تو تنخواہ کا حصہ کتنا بنتا ہے اور کمیشن کا کتنا اس کا بھی علم نہیں مندرجہ بالا تفصیل کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ سے درخواست ہے کہ شریعت کی روشنی میں ارشاد فرمائے کہ : ۱- کیا شیراز کے لیے یہ کھوٹی وراثت میں لینا حلال ہے ؟ ۲- اگر حلال نہیں تو اس کھوٹی کا کیا کیا جائے جس کی قیمت اب تقریباً ڈیر کروڑ ہے ، فروخت کر گے بغیر ثواب کی نیت کئے دقم مستحق افراد میں تقسیم کی جائے یا - فروخت کر گے رقم حکومت کو دی جائے ، لیکن حکومت کو واپسی کی ترتیب معلوم نہیں -فروخت کر گے والد کے پچاس سال نمازوں کا فدیہ دیا جائے ( فدیہ کی تفصیل پھی سمجھائے ) ۳- اگر کھوٹی میں کچھ حلال بھی ہے تو حلال حرام کی تفریق کیسے کی جائے ؟

    جواب نمبر: 155979

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:154-146/D=3/1439

    صورت مسئولہ میں شیراز کو وراثت میں جو کوٹھی ملی ہے وہ اُس کے لیے حلال ہے اور وہ اس کا مالک ہوگیا۔ البتہ تقوی یہ ہے کہ قرض کی رقم چھوڑکر جو رقم کوٹھی بنوانے میں لگی ہے (یعنی چار لاکھ روپئے) اُس میں جتنی کمیشن کی رقم کا ظن غالب ہو اُس کو کسی طرح محکمہ بجلی کے فنڈ میں پہنچادیں۔ وفي الأشباہ: الحرمة تنتقل مع العلم إلا للوارث إلا إذا علم ربّہ،․․․ لکن في المجتبی: مات وکسبُہ حرام فالمیراث حلال، ثم رمز وقال: لا نأخذ بہذہ الروایة، وہو حرام مطلقًا علی الورثة․․․ وقال العلامة ابن عابدین: وفي الخانیة: امرأة زوجہا في أرض الجور إذا أکلت من طعامہ ولم یکن عینُہ غصبًا او اشتری طعاما أو کسوةً من مال أصلہ لیس بطیب فہي في سعة من ذلک والإثم علی الزوج (وہو حرام مطلقا) أي سواء علموا أربابہ أولا؛ فإن علموا أربابہ ردوہ علیہم وإلا فصدقوا بہ أقول: ولا یشکل ذلک بما قدمناہ آنفا عن الذخیرة والخانیة؛ لأن الطعام أو الکسوة لیس عین المال الحرام فإنہ إذا اشتری بہ شیئًا یحل أکلہ علی تفصیل تقدّم في کتاب الغصب: بخلاف ما ترکہ میراثًا فإنہ عین المال الحرام؛ وإن ملکہ بالقبض والخلط عند ا لإمام؛ فإنہ لا یحل لہ التصرّف فیہ قبل أداء ضمانہ وکذا لوارثہ ثم الظاہر أن حرمتہ علی الورثة في الدیاة لا الحکم إلخ (الدر مع الرد: ج۹/ ۵۵۳، ط: زکریا دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند