معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 154881
جواب نمبر: 154881
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 24-23/D=1/1439
آدمی اپنی پہلے کی ہوئی وصیت کو بعد میں بدل سکتا ہے بلکہ بالکل ختم بھی کرسکتا ہے۔ نیز وصیت کی رُو سے متبنی بیٹے کو صرف کل جائیداد اور مملوکات کا ۳/۱ (ایک تہائی) ملے گا آدھا نہیں ملے گا کیونکہ آدمی ۳/۱ (ایک تہائی) سے زائد کی وصیت نہیں کرسکتا ہے۔
آپ کے انتقال کے بعد ورثا میں اگرآپ کے بھائی بھتیجے ہوئے خواہ دور کے رشتے کے تو آپ کے نواسوں کوکوئی وراثت نہیں ملے گی۔ آپ اگر نواسوں کے لیے وصیت کردیں تو پورے ۳/۱ (ایک تہائی) میں متبنی اور نواسے حصے دار ہو جائیں گے۔ اور آپ یہ بھی کر سکتے ہیں کہ نواسوں کو جو کچھ دیا ہو ہر ایک کا حصہ متعین کرکے اپنی زندگی ہی میں بدست خود اس کے حوالے کردیں۔ اس بات کا آپ کو اپنی زندگی میں مکمل اختیار ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند