• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 150079

    عنوان: اولاد کا دیا ہوا ہدیہ، انھیں اولاد کو دیا جائے یا وراثت میں تقسیم کیا جائے؟

    سوال: ایک خاتون جس کے ایک بیٹے نے اس کو ہدیةً سونے کی چین اور کان کا بوندا دیا، اس خاتون نے موت سے چند روز قبل یہ چین اور بوندا اپنی ایک بیٹی کو ہدیہ کر دیا۔ سوال یہ ہے کہ جو چیزیں والدین کو اولاد ہدیہ کرتی ہیں ان کا کیا حکم ہے؟ آیا وہ چیزیں انہیں اولاد کو واپس کر دینا زیادہ صحیح ہے یا اسے بھی وراثت میں تقسیم کیا جائے؟ اس کے علاوہ اولاد کی کوئی بھی چیز ہدیہ کرتے ہوئے کیا اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ تمام اولادوں کو برابر ہدیہ دیا جائے یہ نہیں کہ ایک کو ہدیے میں سب دیدیا جائے اور باقی کو کچھ بھی نہیں؟ حدیث میں آیا ہے: میں نے سنا ہے کہ یہ ظلم ہے۔ یہاں یہ واضح کردوں کہ جس ایک بیٹی کو ہدیہ کیا گیا زیور نہ تو وہ ضرورت مند ہے اور نہ ہی غیر شادی شدہ، اور جس بیٹے نے ہدیہ کیا تھا صرف اولادوں میں اسی بیٹے نے اس خاتون کی زندگی میں اور اس کی بیماری میں اپنا مال خرچ کیا تھا، ایسی صورت میں ہدیہ کرنے کا زیادہ احسن عمل کیا ہے؟

    جواب نمبر: 150079

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 809-760/sn=7/1438

    بچے اگر والدین کو کوئی چیز ”ہدیہ“ کریں تو والدن اس کے مالک ہوجاتے ہیں، پھر انھیں اختیار ہے کہ خود اس کا استعمال کریں یا کسی کو ”ہبہ“ کردیں، اگر وہ بہ طور ”ہدیہ“ دی ہوئی چیز کو محفوظ رکھتے ہیں، کسی کو نہیں دیتے اور نہ ہی بیچتے ہیں یہاں تک کہ ان کا انتقال ہوجاتا ہے تو وہ چیز ان کے ”ترکہ“ میں شامل ہوجائے گی؛ البتہ اگر وہ اولاد کی طرف سے دی ہوئی چیز یا اپنی کوئی بھی مملوکہ چیز بچوں کو اپنی زندگی ہی میں بحالت صحت دیدینا چاہتے ہیں تو انھیں چاہیے کہ اپنی تمام اولاد کا خیال رکھیں، بلاوجہ کسی کو محروم کردینا ناجائز اورمکروہ ہے، باقی بچوں کی ضرورت یا ان کی خدمت کے پیش نظر کمی زیادتی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ لیکن اگر والدین دیگر بچوں کا خیال کیے بغیر کسی ایک کو کوئی چیز ہبہ کرکے اس کو قبضہ دخل دیدیں تو جس کو دیں گے وہ اس کا مالک ہوجائے گا، گو والدین کا یہ عمل فی نفسہ مکروہ ہو؛ اس لیے صورتِ مسئولہ میں اس خاتون نے اپنی زندگی میں بحالت صحت اپنی جس بیٹی کو زیور ہبہ کردیا تھا وہ بیٹی اس زیور کی مالک ہوگئی، اس میں کسی اولاد کا کوئی حق نہیں ہے، اگر مرحومہ نے بلاکسی وجہ ترجیح کے بیٹی کو زیور دیا تھا نیز دیگر اولاد کو کوئی چیز (نہ زیور کی شکل میں اور نہ کسی اور چیز کی شکل میں) نہیں دی تو یہ ان کی طرف سے ایک ناجائز ومکروہ عمل ہوا ہے، اب ورثاء کو چاہیے کہ مرحومہ نے بیٹی کو کیوں دیا بیٹے کو کیوں نہیں دیا؟ اس بحث میں پڑنے کے بہ جائے مرحومہ کے لیے دعائے مغفرت کریں، جس بیٹے نے مرحومہ کی زندگی میں ان کی خدمت کی اور علاج ومعالجے میں اپنا پیسہ خرچ کیا اسے ان شاء اللہ آخرت میں بڑا اجر ملے گا اور ماں کی خدمت تو اخلاص کے ساتھ بہ نیت ثواب ہی کرنی چاہیے، اس کے پیچھے کسی مال ومتاع کا حرص نہ ہونا چاہیے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند