معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 149480
جواب نمبر: 149480
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 533-568/N=6/1438
(۱) : اگر مرحوم نے اپنے وارثین میں صرف ایک بیوہ، دو بیٹیاں اور والد کو چھوڑا ہے، اور مرحوم کی ماں کا انتقال مرحوم کی حیات ہی میں ہوگیا تھا تو مرحوم کا سارا ترکہ بعد ادائے حقوق متقدمہ علی الارث ۲۴/ حصوں میں تقسیم ہوگا، جن میں بیوہ کو ۳/ حصے، مرحوم کے والد محترم کو ۵/ حصے اور دونوں بیٹیوں میں سے ہر بیٹی کو ۸، ۸/ حصے ملیں گے۔ اور والد محترم کی وجہ سے مرحوم کے بھائی بہن محجوب ہوں گے، یعنی: انھیں مرحوم کے ترکہ سے کچھ نہیں ملے گا۔ تخریج مسئلہ حسب ذیل ہے:
زوجة = ۳
بنت = ۸
بنت = ۸
أب = ۵
(۲) : باپ کے بعد نابالغ بچوں پر ولایت دادا کو حاصل ہوتی ہے؛ اس لیے مرحوم بیٹے کی بچیوں کے ولی آپ ہوں گے اور اگر مرحوم نے انتقال سے پہلے کسی کو اپنا وصی نہ بنایا ہو تو بچیوں کی املاک اور سرمایہ کے حفاظت بھی آپ ہی کے ذمہ ہوگی، جو آپ امانت ودیانت داری کے ساتھ انجام دیں گے، مرحوم کی بیوہ یا ساس، سسر وغیرہ نہ تو ولی ہوں گے اور نہ ہی بچیوں کی املاک وسرمایہ ان کے حوالے کیا جائے گا ؛ البتہ بیوہ کو بچیوں کی عمر چاند کے حساب سے نو سال مکمل ہونے تک پرورش کا حق ہوگا اوربچیوں کو والد مرحوم کے ترکہ سے جو حصہ ملے گا، بچیوں کی ضروریات اسی سے پوری جائیں گی، اور اگر آپ بچیوں کا مال ان کے اخراجات میں خرچ نہ کرکے اپنی جیب سے ان کے اخراجات پورے کریں تو یہ بچیوں کے حق میں بہتر ہوگا اور آپ کے لیے ذخیرہٴ آخرت ہوگا۔
(۳) : مرحوم کے خالو کا مرحوم کے ذمہ جو پانچ لاکھ روپے کا بقایا ہے، وہ مرحوم ہی کے ترکہ سے ادا کردیا جائے، یعنی: مرحوم کو کمپنی سے جو پیسے ہیں یا اس کے پاس اکاوٴنٹ وغیرہ میں محفوظ ہیں، ان سے ادا کردیا جائے تاکہ خرید کردہ ساری زمین مرحوم کے وارثین کی ہوجائے۔
اور مرحوم نے اپنی زندگی میں کچھ لوگوں کے سامنے آدھی زمین بھائی کے نام کرنے کا جو وعدہ کیا تھا یا مرحوم کی بیوی نے مرحوم کے انتقال کے بعد بہ ذریعہ واٹس اپ مرحوم کے بھائی کو جو میسیج کیا تھا، شرعاً اس کا کچھ اعتبار نہیں، اس کی وجہ سے مرحوم کا بھائی آدھی زمین کا حق دار نہیں ہوسکتا؛ بلکہ مرحوم کی ساری زمین صرف اس کے وارثین میں تقسیم ہوگی۔
(۴) : فلیٹ کی خریداری میں جو لون لیا گیا، وہ مرحوم کے ترکہ ہی سے ادا کیا جائے، یعنی: کمپنی سے جو پیسے ملے یا مرحوم کے پاس اکاوٴنٹ وغیرہ میں جو پیسے محفوظ ہوں، ان سے ادا کیا جائے۔ اور اگر لون ادا کرنے کی کوئی شکل نہ ہو تو سب وارثین اپنے حصہ کے بہ قدر لون برداشت کریں یا مرحوم کا زائد از ضرورت کوئی سامان فروخت کردیا جائے اور اس سے لون ادا کیا جائے، اور اگر یہ صورت بھی مشکل ہو تو فلیٹ نیلام کرکے لون ادا کیا جائے اور مابقیہ رقم حسب شرع تمام وارثین میں تقسیم کردی جائے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند