معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 147004
جواب نمبر: 147004
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 430-420/Sn=4/1438
جب آپ کی کوئی نرینہ اولاد نہیں ہے تو اس حال میں وفات کی صورت میں آپ کے بھائی بہن بھی آپ کے وارث ہوں گے اور کسی آدمی کے لیے یہ جائز نہیں کہ بعض ورثاء کو محروم کرکے دوسرے بعض کو اپنی کل جائداد دیدے؛ اس لیے صورتِ مسئولہ میں اگر آپ اپنی زندکی ہی میں جائداد بخشش کرنا چاہتے ہیں تو پوری جائداد بیوی اور بچیوں کو نہ دیں؛ بلکہ تھوڑا بہت حصہ بھائی اور دونوں بہنوں کو بھی دیں؛ لیکن جتنا جس کو دینا ہو وہ متعین مشخص کرکے دیں بلکہ بھائی بہنوں اسی طرح بیوی کا حصہ متعین طور پر ان کے حوالے کر بھی دیں اور اپنا قبضہ مکمل طور پر ہٹالیں؛ کیوں کہ زندگی میں تقسیم جائداد شرعاً ”ہبہ“ ہے اور ہبہ اسی وقت تام اور مکمل ہوتا ہے جب ہرایک موہوب لہ کا حصہ مشخص ومتعین کرکے اس کے قبضہ دخل میں دیدیا جائے؛ البتہ نابالغ بچیوں کا حصہ الگ الگ کرکے آپ بہ حیثیت ”ولی“ اپنے قبضہ میں رکھ سکتے ہیں۔
(۲) اگر آپ کے والدین کی طرح دادا، دادی کا بھی انتقال ہوچکا ہے اور آپ کی وفات کے وقت موجودہ تمام ورثاء باحیات رہیں، نہ ان میں کوئی کم ہو اور نہ کوئی بڑھے، تو صورت مسئولہ میں آپ کا کل متروکہ مال بعد ادائے حقوق متقدمہ علی الارث ۲۸۸/ حصوں میں تقسیم ہوگا جن میں سے ۳۶حصے آپ کی بیوی کو، ۶۴-۶۴حصے آپ کی تینوں بیٹیوں میں سے ہرایک کو، ۱۵-۱۵حصے ہرایک بہن کو اور ۳۰/ حصے بھائی کو ملیں گے۔ نقشہ اس طرح بنے گا۔
زوجہ = ۳۶
بنت = ۶۴
بنت = ۶۴
بنت = ۶۴
اخ = ۳۰
اخت = ۱۵
اخت = ۱۵
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند