• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 62776

    عنوان: طلیحہ بن خویلد ارتداد کے بعد حضرت عمر کے زمانہ میں دوبارہ اسلام لائے تو کیا وہ صحابی باقی رہے؟

    سوال: حضرت طلیحہ بن خویلداسدی صحابی رسول ہیں بعدمیں ارتداد کاشکارہوئے نبوت کاکربیٹھے پھرحضرت عمر کے زمانے میں توبہ کرکے عراق اورایران جنگوں میں شامل ہوئے ،ان کوصحابی ماننااورضی اللہ عنہ کہناکیساہے ؟اگرکوئی ان کے اس فعل کی وجہ سے رضی اللہ عنہ نہ کہے توکیاوہ گنہگار ہوگا؟ جواب مرحمت فرمائیں۔

    جواب نمبر: 62776

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 446-446/M=5/1437 وتبطل صحبة النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وأصحابہ وسلم بالردة إذا مات علیہا فإن أسلم بعدہا فإن کان فی حیاتہ صلی اللہ علیہ وسلم فلا مانع من عودہا وإلا ففی عودہا نظر کما ذکرہ العراقی (الأشباہ والنظائر: ۱/ ۱۷۹، ط: دار الکتب العلمیة) وأما لو لقیہ مسلمًا ثم ارتدّ وعاد إلی الإسلام بعد وفاتہ صلی اللہ علیہ وسلم کقرة بن ہبیرٍ والأشعث بن قیسٍ ففیہ نظر والأظہر النفي لصحبتہ؛ لأن صحبة النبي صلی اللہ علیہ وسلم من أشرف الأعمال وحیث کانت الردَّةُ محبطة للعمل عند أبي حنیفة ونصَّ علیہ الشافعي في ”الأم“ فالظاہر أنہا محبطة للصحبة المتقدمة إلخ․ (التقریر والتحبیر“ لابن أمیر حاج الحنفي: ج۲/ ۲۶۱، ط: دار الکتب العلمیة بیروت) صورت مسئولہ میں حضرت طلیحہ بن خویلد رحمة اللہ علیہ (چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مرتد ہوکر دوبارہ اسلام لائے تھے) صحابی نہیں رہے، اس لیے ان کو صحابی نہیں کہا جائے گا۔ طلیحة بن خویلد الأسدی ارتد بعد النبی صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وادعی النبوة، وکان فارسا مشہورا بطلا، واجتمع علیہ قومہ، فخرج إلیہم خالد بن الولید فانہزم طلیحة وأصحابہ، وقتل أکثرہم، وکان طلیحة قد قتل ہو وأخوہ عکاشة بن محصن الأسدی (وثابت بن أقرم ثم لحق بالشام، فکان عند بنی جفنة حتی قدم مسلما مع الحاج المدینة، فلم یعرض لہ أبو بکر، ثم قدم زمن عمر بن الخطاب، فَقَالَ لہ عمر: أنت قاتل الرجلین الصالحین- یعنی ثابت بن أقرم، وعکاشة بن محصن، فَقَالَ: لم یہنی اللہ بأیدیہما وأکرمہما بیدی․ فَقَالَ: واللہ لا أحبک أبدا. قَالَ: فمعاشرة جمیلة یا أمیر المؤمنین. ثم شہد طلیحة القادسیة فأبلی فیہا بلاء حسنا․ (الاستیعاب في معرفة الصحابة، لابن عبد البرّگ ۲/ ۷۷۳، ط: دار الجیل، بیروت، ”أسد الغابة“ لابن الأثیر: ۳/۹۴، ط: دار الکتب العلمیة، ”سیر أعلام النبلاء“ للحافظ الذہبي: ۳/ ۱۹۴، ط: دار الحدیث القاہرة، ”الإصابة في تمییز الصحابة“ للحافظ ابن حجر: ۳/ ۴۴۰، ط: دار الکتب العلمیة) حضرت طلیحہ رحمہ اللہ کے لیے ”رضی اللہ عنہ“ کہنا ناجائز نہیں ہے، لیکن اگر کوئی نہ کہے گنہگار نہیں ہوگا، ہاں ان کے لیے ”رحمة اللہ علیہ“ کہنا اچھا ہے۔ ویستحب الترضّی للصحابة وکذا من اختلف في نبوّتہ کذي القرنین ولقمان والترحّم للتابعین ومن بعدہم من العلماء والعباد وسائر الأخیار وکذا یجوز عکسہ الترحم للصحابة والترضّی للتابعین ومن بعدہم علی الراجح، ذکرہ القرمانی، وقال الزیلعي: الأولی أن یدعو للصحابة بالترضي وللتابعین بالرحمة ولمن بعدہم بالمغفرةو التجاوز․ (الدر المختار: ۶/ ۷۵۴، ط: سعید کراچی)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند