• متفرقات >> تاریخ و سوانح

    سوال نمبر: 61473

    عنوان: کیا اسلام میں خلافت یا بادشاہت ہے؟کیا خلافت کے لیے وحی نازل ہوئی تھی؟ کیا بادشاہت کو منسوخ کیا گیاتھا؟

    سوال: کیا اسلام میں خلافت یا بادشاہت ہے؟کیا خلافت کے لیے وحی نازل ہوئی تھی؟ کیا بادشاہت کو منسوخ کیا گیاتھا؟

    جواب نمبر: 61473

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1346-261/D=3/1437-U ”إِنِّی جَاعِلٌ فِی الْأَرْضِ خَلِیفَةً“ آیت قرآنی ہے۔ اللہ کے احکام بندوں تک پہنچانے اور دنیا میں خدا کا قانون نافذ کرنے اور عدل وانصاف قائم کرنے کے لیے اللہ نے زمین میں جن بندوں کو بھیجا ہے وہ اللہ کے نبی اور خلیفہ کہلاتے ہیں، چنانچہ سب سے پہلے نبی اور خلیفہ آدم علیہ السلام ہیں، پہر نوح علیہ السلام پھر اسی طرح یہ سلسلہ درجہ بدرجہ چلتے ہوئے آخر میں ہمارے آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سب سے آخری نبی اور خلیفہ ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی یا خلیفہ اللہ کی طرف سے نہ آیا ہے نہ آئے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد احکامِ الٰہی کے نافذ کرنے اور عدل وانصاف قائم کرنے کے جو منتخب ہوا وہ خلیفة الرسول اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب ہوتا ہے۔ خلافت پوری دنیا میں ایک ہی ہوتی ہے، البتہ ملوکت بادشاہت متعدد ہوسکتی ہے، چنانچہ ایک ہی زمانہ میں علاقے کے لحاظ سے متعدد سلاطین اسلام ہوئے ہیں، ملوکت بھی خلافت کی طرح ایک عہدہ ور ذمہ داری ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر خلافت کے ساتھ ساتھ بادشاہت کی شان بھی موجود تھی۔ نیز ملوکت اور بادشاہت بھی اللہ کی طرف سے ایک تحفہ اور انعام ہے جیسا کہ سلیمان علیہ السلا نے ”ہبْ لِیْ ملکًا“ کی دعا کی اور اللہ نے ان کو خلافت کے ساتھ ساتھ بادشاہت بہی عطا کی تھی جس پر دلالت کرنے والی بہت سی آیتیں قرآن میں موجود ہیں، لہٰذا بادشاہت فی نفسہ مذموم شئ نہیں ہے۔ الغرض جب آسمانی خلافت اور بادشاہت ختم ہوگئی تو دنیا کی خلافت اور بادشاہت کا سلسلہ شروع ہوا، چنانچہ خلفائے راشدین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین اور خلیفہ ہیں، خلیفہ بنانے کے مختلف طریقے عہد صحابہ میں پیش آئے ہیں، چنانچہ ایک طریقہ تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے انتخاب کا تھا کہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم نے ان کو بالاتفاق اپنا امیر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ مقرر کیا اور دوسرا طریقہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے انتخاب کا تھا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے اخیر زمانہ میں بغیر کسی شوریٰ کے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اپنا جانشین اور خلیفہ بنادیا، پھر تیسرا طریقہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے انتخاب کا تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات سے پہلے ایک شوریٰ قائم کی جس کے انتخاب سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے، اور چوتھا طریقہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے انتخاب کا تھا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد اکثر صحابہ رضی اللہ عنہم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کیا اور ان کو اپنا امیر تسلیم کرلیا۔ اسی طرح ایک پانچواں طریقہ وہ ہے جو صحابئی رسول ہادی، مہدی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ انھوں نے اپنے بیٹے یزید کو اپنا جانیشین اور خلیفہ ینایا۔ الغرض یہ سب کے سب طریقے عہد صحابہ میں پیش آئے ہیں اور بادشاہت کا طریقہ بھی اسلام میں موجود ہے، پس اُسے منسوخ کیسے کہا جائے گا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ”الخلیفة بالمدینة والملک بالشام“ حدیث میں موجود ہے۔ (مشکاة: ۵۸۳)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند