• متفرقات >> تاریخ و سوانح

    سوال نمبر: 58727

    عنوان: جناب یک سوال داشتم الحمدللہ کہ در افغانستان ھمہ برمسلک دیوبند ھستند لھذا میخواستم کہ معلومات بدھیند کہ چگونہ از دیوبند کاروان علم بہ افغانستان منتقل شد وبہ وسیلہ کیھا و در کدام وقت نام استادان و شاگردان دیوبند کہ از افغانسان بودند چی بود و اگر دراین مورد کدام کتاب ھست نامش را بنویسیند ؟ اجرکم علی اللہ

    سوال: جناب یک سوال داشتم الحمدللہ کہ در افغانستان ھمہ برمسلک دیوبند ھستند لھذا میخواستم کہ معلومات بدھیند کہ چگونہ از دیوبند کاروان علم بہ افغانستان منتقل شد وبہ وسیلہ کیھا و در کدام وقت نام استادان و شاگردان دیوبند کہ از افغانسان بودند چی بود و اگر دراین مورد کدام کتاب ھست نامش را بنویسیند ؟ اجرکم علی اللہ

    جواب نمبر: 58727

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 634-123/D=7/1436-U چونکہ باشندگان سرزمین افغان (بلخ، بغلان، فاریاب، کابل، ہرات وغیرہ) از زمانہٴ قدیم بدین سونہ تنہا حنفی مذہب بودند؛ بلکہ دریک عرصہٴ دارزی مرکز علم ودانش وترجمان حنفیت بودند، وجم غفیر از فقہاء ومحدثین دریں خِطّہ گذشتند، اما متأسفانہ بنا بر تحولات زمانہ وتبدیلی حکوماتِ عدہٴ کثیر از علمائے ایں سرزمین شہید شدند حتی کہ بہائر ندرة وقلت علماء بعض از رسوم خلافِ شریعت دریں سرزمین فرارسید؛ لکن بفضل وکرم خداوند بود کہ مطابق علم ازلی اش بخاطر نجات وہدایت بشر دارالعلوم دیوبند ہمچو یک مرکز دینی وتعلیم گاہ بزرگی بنقش قدم سلف صالحین موافق باعقائد ونظریات اہل سنت والجماعت کہ مبنایش مسلک اعتدال است قائم گردد، در ۱۵/ محرم الحرام ۱۲۸۳ھ موافق بہ ۳۰/ مئی ۱۸۶۶ء در قصبہٴ دیوبند ہندوستان افتتاح بعمل آمد، واز ممالک بیرونی اولیں کشوریکہ دارالعلوم دیوبند را خیر مقدم نمودہ نونہالان خود را بخاطر تعلیم وتربیت علوم دینی سپردِ دارالعلوم دیوبند کرد، افغانستان بود، تاریخ دارالعلوم ثبت است کہ تقریباً ”از ۱۲۸۳ھ تا ۱۳۹۶ھ یک صد ونہ (۱۰۹) طالب علم افغانی از دارالعلوم فراغت حاصل کردہ مستحق سند فضیلت شد وایں فضلاء نستو بعد از فراغتِ شان بہ جاہائے افغانستان رفتہ بہ تعلیم وتربی، نشر واشاعت مسک دیوبندیت پرداختہ ہموارہ درسعی وتلاش اصلاح رسوم وبدعات شدند واسمائے بعض ازیں فضلاء درج ذیل اند: مولانا میرزاہید اللہ افغانی شاگرد حضرت مولانا سید احمد دہلوی مدرس دوم دارالعلوم دیوبند، مولانا سید محمود افغانی، مولانا نور جمال افغانی، مولالنا عبد الجلیل افغانی، مولانا محمد رشید اغانی، مولانا قلندر افغانی، مولانا شاہ زمانی افغانی، مولانا محمد کبیر افغانی، مولانا نور عالم افغانی، مولانا محمد افغانی، مولانا محمد وصیل بلخی، مولانا حافظ محمد برأت بلخی ومولانا نور اللہ خان افغانی شاگردان حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی ومولانا سیف الرحمن کابلی شاگرد حضرت فقیہ النفس مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ ۔ واز طرف دیگر وقتیکہ حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ برائے ہندوستان خاکہ یک حکومت عارضی را تیارکردہ بود مرکز آن را در کابل پائخت افغانستان قراردادہ بود وبخاطر عملی نمودن این قصد پاک مولانا عبید اللہ سندھی ومولانا محمد میاں انبیٹھوی را بہ سوئے کابل رواں کرد وایں دو بزرگ را بخاطر استحکام ارتباط مخلصانہ در بین ملت افغان ودارالعلوم دیوبند ہمیشہ در سعی وتلاش بودند ونیز دیگر فضلاء دارالعلوم دیوبند در سرزمین افغان خدماتِ او زندہ کردہ اند، مانند مولانا عبدالرزاق پشاوری شاگرد خاص حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ بود، اور در افغانستان مدتی بحیثیت قاضی القضاة مقرر شدہ بود ودر نزد مردم افغان دارای مقام عالی بود وہرآن حکم جاری میکرد نافذ میگردید، وہمچناں حضرت مولانا محمد میاں منصور انصاری نواسہٴ حجة الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی بانی دارالعلوم دیوبند یک مدتی درازی در کابل مقیم بود وعلم وفضل ایشا در بین مردم افغان مسلم بود وبیانات ایشان تأثیر خاص بر حکومت افغان داشت، در تاریخ دارالعلوم نوشتہ شدہ است کہ ”۱۲۸۳ھ میں جب دارالعلوم دیوبند کا قیام عمل میں آیا تو بیرونی ممالک میں افغانستان ہی وہ ملک ہے جس نے سب سے پہلے دارالعلوم کا خیر مقدم کیا اور اپنے نونہالوں کو دارالعلوم کی آغوشِ تعلیم وتربیت کے سپرد کردیا“ (تاریخ دارالعلوم دیوبند: ۱/۳۵۲، ط: مکتبہ دارالعلوم دیوبند) ان غیرملکی فضلائے دارالعلوم کی ایک سو چودہ سالہ فہرست از ۱۲۸۳ ھ تا ۱۳۹۶ھ یہ ہے: (۱) افغانستان: ۱۰۹․․․ (حوالہ سابق ۱/۴۴۴) برائی جزیات بیشتر ”تاریخ دارالعلوم دیوبند“ و”لیل ونہار یعنی دارالعلوم ڈائری“ (ہرسال بشکل کتابچہ شائع می گردد) مطالعہ بفرمائد) ------------------------- بعد از املاء وارشادِ حضرت مفتی زین الاسلام قاسمی بقلم عبد الرحیم افغانی متعلّم سالِ اول تدریب فی الافتاء دارالعلوم دیوبند نویشتہ شد۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند