متفرقات >> حلال و حرام
سوال نمبر: 164345
جواب نمبر: 164345
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:1484-144T/L=1/1440
(۱،۲) زکوة عشر وغیرہ کے مصارف غرباء مساکین وغیرہ ہیں جن پر ایسی رقموں کو تملیکاً خرچ کرنا ضروری ہے ،مالدار کا لڑکا اگر بالغ ہے اور وہ خود صاحبِ نصاب نہیں ہے تو اس کے لیے زکوة وغیرہ کی رقم لینے کی گنجائش ہے ،تاہم اگر اس کی ضروریات پوری ہوجاتی ہوں تو اس کو چاہیے کہ قیمتاً مدرسہ کا کھانا کھائے ،مدرسہ کی امداد قبول نہ کرے،اور اگر مالدار کا لڑکا نابالغ ہے تو چونکہ نابالغ لڑکا والد کے ماتحت ہوتا ہے؛اس لیے اگر باپ مالدار صاحبِ نصاب ہے تو اس کے لیے زکوة ودیگر صدقاتِ واجبہ کا استعمال جائز نہ ہوگا ،جہاں تک مدرسہ کا اپنا ضابطہ ہے تو یہ علم پر ابھارنے کی غرض سے ہے ؛اس لیے نمبرات کی بناپر امداد جاری کرنے یا بند کرنے کی گنجائش ہوگی۔
(۳) یہ بات صحیح ہے کہ زکوة مال کا میل کچیل ہے ؛اس لیے مستطیع طلبہ کو اس کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے ؛اس سے دل پر غلط اثر ہوسکتا ہے،فتاوی محمودیہ :۴/۹۷پر ایصالِ ثواب کا کھانا مالدار کے کھانے پر دل کے مردہ ہوجانے کی بات مذکور ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند