• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 164167

    عنوان: سکھیا سمردھی یوجنا کا حکم

    سوال: سوال: باسمہ تعالی کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ حکومت ہند نے بچیوں کے مستقبل کی بہتری کے نام پر سُکَنِّیَا سَمْرَدْھیْ یُوْجَنَا کے نام سے ایک منصوبہ شروع کیا ہے جس میں دس سال تک کی عمر کی بچیوں کے لیے اس نام سے بینک میں کھاتا کھولا جاتا ہے جس میں والدین /سرپرست بچی کی طرف سے کم از کم سالانہ ایک ہزار اور زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ لاکھ روپیہ بچی کے چودہ سال کی عمر تک جمع کرا سکتے ہیں ۔ بچی کے اکیس سال کے ہونے پر حکومت اس اکاونٹ میں ایک بڑی رقم اس بچی کو دے گی (جس کی مقدار سالانہ جمع کرائی جانے والی رقم کے تناسب سے رہے گی)جس کی تفصیلات اس ویب سائٹ پر موجود ہے -: (https://www.sbi.co.in/portal/web/govt-banking/sukanya-samriddhi-yojana) اس کے علاوہ اور بھی تقریباً تمام بینکوں /پوسٹ آفس /اخبارات اور بہت سی حکومتی ویب سائٹس پر اس کی تفصیلات موجود ہیں۔(اس کے انداز سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ بچیوں کی بہبود کے لیے یہ اسکیم ہے جس میں حکومت کی طرف سے ایک بڑی امدادی رقم سود کے نام سے جوڑی جا رہی ہے جو کہ عام طور پر جاری سودی اکاونٹس سے مختلف ہے )جن میں سے کچھ یہ ہے ۔ اس اسکیم میں ہر ایک کا اکاونٹ نہیں کھل سکتا ،ایک والدین کی صرف دوبچیوں کا اکاونٹ کھل سکتاہے ۔ رقم صرف ایک ہزارسے ڈیڑھ لاکھ سالانہ کے بیچ میں جمع کرائی جا سکتی ہے اس سے کم یا زیادہ نہیں۔ بچی کی عمر دس سال سے کم ہو اس وقت سے چودہ سال کی عمر تک رقم جمع کرائی جا سکتی ہے ، اس کے بعد نہیں۔ حکومت کی طرف سے سود کے نام سے جمع کرائی جانے والی رقم عامةً بینکوں کی طرف سے دیے جانے والے سود کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہے ۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا اس اسکیم کے تحت بچیوں کا اکاونٹ کھلوانا اور اس فائدے کو حاصل کرنا درست ہے یا نہیں ؟ جواب جلد واضح اور مدلل عنایت فرمائیں۔

    جواب نمبر: 164167

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1259-1041/N=12/1439

    سود شریعت میں علی الاطلاق حرام ہے خواہ اس کی مقدار کم ہو یا زیادہ؛ اس لیے سوال میں مذکور اسکیم بلاشبہ حرام ہے، کسی مسلمان کے لیے اس اسکیم کے تحت بچیوں کا اکاوٴنٹ کھلواکر اس اس سے فائدہ اٹھانا ہرگز ہرگز جائز نہیں۔

    فتاوی دار العلوم دیوبند (۱۴: ۴۹۱، سوال: ۶۱، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند) میں ہے:

    ”سود کم دینا پڑے یا زیادہ، حرمت میں برابر ہے، اسی طرح لینا سود کا کم ہو یا زیادہ، مطلقا حرام ہے، ایک حدیث میں ہے کہ ایک درہم سود کا کھانا چھتیس زنا سے زیادہ گناہ ہے، والعیاذ باللہ۔ “

    قال اللّٰہ تعالی: وأحل اللہ البیع وحرم الربا الآیة (البقرة: ۲۷۵)، عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہما قال: لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آکل الربوا وموٴکلہ وکاتبہ وشاہدیہ، وقال: ہم سواء (الصحیح لمسلم، ۲: ۷۲، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، الربا فضل خال عن عوض بمعیار شرعي مشروط لأحد المتعاقدین في المعاوضة (تنویر الأبصار مع الدر والرد، کتاب البیوع، باب الربا، ۷: ۳۹۸- ۴۰۰، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند