• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 153996

    عنوان: حرام رقم کا کیا کیا جائے

    سوال: کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص پٹرول پمپ پر کام کرتا تھا، وہ کہی گئی مقدار سے کم پٹرول ڈال کر رپے پورے وصول کرتا تھا۔یعنی چوری کرتا تھا اللہ نے ہدایت دی،یہ کام چھوڑ دیا۔نماز کی پابندی شروع کی،اللہ نے راہ راست پر لایا۔حساب کیا گیا تو پٹرول پمپ سے کمائی ہوئی ناجائز کمائی 13 لاکھ بنتی ہے ۔ان میں 2 لاکھ 50 ہزار پاس موجود تھے ۔علماء سے پوچھ کر یہ روپئے غریب غرباء میں بغیر ثواب کی نیت سے بانٹ دیئے ۔مگر جب ماں باپ کو پتا چلا تو گھر میں بہت زیادہ ہنگامہ ہوا۔لڑائی جھگڑا کیا گیا کہ یہ روپئے کیوں دیئے ،کس سے پوچھ کر دیئے ۔ہمیں دے دیتے ہمارے کام آجاتے ۔مولوی خود بھی الٹے کام کرتے ہیں۔تمہیں کس نے ان الٹے کاموں میں لگایا ہے ۔باپ نے کہا کہ اگر تمہاری ماں کو کچھ ہوا تو تمہیں پولیس کے حوالے کردوں گا۔تم کس دہشت گردوں سے ملتے ہو وغیرہ۔ اب درج ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں۔ (۱) کیا یہ حرام کی کمائی ہمارے لیے یا اس دوست کے لیے استعمال کرنا صحیح تھا؟ (۲) علماء نے مشورہ دیا کہا کہ یہ رقم حرام کی ہے اس کو غریب مساکین میں بغیر ثواب کی نیت سے تقسیم کردو،رقم دوست کے پاس تھی مگر والدین جانتے تھے کہ رپے رکھے ہیں۔بغیر ان کو بتائے تقسیم کر دیئے اور ان کو پتا چلا تو انہوں نے ہنگامہ کر دیا کہ بے شک حرام ہوں مگر ہمیں دے دیتے ۔ کیا اس دوست نے بغیر اطلاع کے یہ صحیح کیا کہ غلط اگر وہ بتا دیتا وہ والدین رپے لے لیتے مگر کسی بھی صورت تقسیم نا کرتے ،یہاں تک کہ گھر سے نکلنے کہا کہ کیوں دیئے ؟ (۳) کیا یہ عمل کر کے وہ والدین کی نافرمانی مرتکب ہوا؟ (۴) علماء نے جو بتایا دوست نے لفظ بالفظ ویسے ہی کیا والدین سخت ناراض اور خفا ہیں ایسی صورت میں کیا کیاجائے ؟ منظر احمد مانسہرہ کالونی،لانڈھی،کراچی۔

    جواب نمبر: 153996

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1372-1282/H=12/1438

    (۱) آپ اور آپ کے دوست کے لیے حرام رقم کا استعمال کرنا جائز نہ تھا۔

    (۲) علمائے کرام کے مشورہ (بلکہ بیان کردہ حکم شرعی) کے مطابق غرباء فقراء مساکین کو وہ رقم دیدی اچھا کیا، والدین کی اس سلسلہ میں ناراضگی بے محل ہے۔

    (۳) والدین کی نافرمانی کا ارتکاب صورت مسئولہ میں نہیں ہوا۔

    (۴) اگرچہ والدین کو ناراض نہ ہونا چاہیے تاہم مسئلہ سے ناواقفیت کی وجہ سے وہ ناراض وخفا ہیں تب بھی بیٹے کے حق میں اچھا یہی ہے کہ حکمت ونرمی سے پیش آتا رہے ان کی جانی مالی خدمت کرتا رہے، حُسن اخلاق ہی سے پیش آیا کرے، اس طرح خلق حسن سے پیش آتے رہنے پر کچھ عرصہ میں ہی وہ ان شاء اللہ نرم ہوجائیں گے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند