• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 150646

    عنوان: سرکاری ملازمین کو چند سالوں کے بعد جو اضافہ ملتا ہے اس كا كیا حكم ہے؟

    سوال: سوال یہ ہے کہ میں ایک سرکاری ادارہ میں ملازم ہوں ، اور ادارے کے قانون کی رو سے دیگر ملازمین کی طرح مجھے بھی وی یا زیڈ بینک لیمیٹڈ میں اکاونٹ کھلواکے وہاں سے اپنی تنخواہ لینا لازم ہے ، اور یہ دونوں بینک سودی ہیں ، اب مذکورہ بینک کئی سال بعد ہر ملازم کو 300 یا 500 ڈالر زیادہ دیتا ہے اس رقم کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے ؟ یہاں بعض علماکرام کہتے ہیں کہ چونکہ عام ملازمین کی اس میں کوئی contribution (رول /حصہ )نہیں ہے ، لہذا ان کیلئے لینے کی گنجائش ہے ، اگرچہ تقوی کا تقاضا نہ لینا ہے ، جب کہ بعض علما کرام کا کہنا ہے کہ یہ سود ہے ، کیونکہ ادارہ کے سربراہ کا مذکورہ بینک کے ساتھ یہ معاہدہ ہوتا ہے کہ وہ ملازمین کی تنخواہ مہینہ پورا ہونے سے 24، یا 48 گھنٹہ قبل بینک میں ٹرانسفر کریں گے ، اور بینک 24 یا 48 گھنٹہ مذکورہ رقم جو لگ بھگ 2لاکھ ڈالر سے اوپر بنتی ہے اپنے اکاونٹ میں رکھ کر اس سے فائدہ اٹھاتاہے ، ظاہر ہے کہ یہ قرض ہے ، جس کا نفع ملازم کو دو یا تین سال بعد مل رہاہے ، لہذا یہ کل قرض جر نفعا فھو ربا کے تحت ناجائز اور سود ہے ۔

    جواب نمبر: 150646

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 819-796/N=8/1438

     (۱): وی یا زیڈ بینک لمٹیڈ اگر سرکاری بینک ہیں تو صورت مسئولہ میں سرکاری ملازمین کو چند سالوں کے بعد جو اضافہ ملتا ہے، وہ شرعاً جائز ہے؛ کیوں کہ جب بینک اور ملازم کی ملازمت کا ادارہ دونوں سرکاری ہیں اور اضافہ اُس ۲۴یا ۴۸/ گھنٹے رقم محبوس کرنے اور استعمال میں لانے کا عوض ہے جس میں تنخواہ ملازم کے اکاوٴنٹ میں نہیں پہنچتی تو ایک سرکاری ادارے سے دوسرے سرکاری ادارے میں رقم رہنے کی بنیاد پر ملنے والایہ اضافہ حکومت کی طرف سے عطیہ شمار ہوگا، اس پر سود کا حکم نہ ہوگا۔ اور اگر یہ دونوں بینک پرائیویٹ ہیں تو اس صورت میں بینک کی طرف سے ملنے والا یہ اضافہ شرعاً درست نہ ہوگا، یہ بہ حکم سود ہوگا جو در اصل پرائیویٹ بینک سرکار کو دیتی ہے اور سرکار ملازم کو، پس ایسی صورت میں اضافہ نہ لیا جائے۔ اور اگر کوئی شخص پہلی صورت میں بھی احتیاط کرے اور یہ اضافہ بینک سے وصول نہ کرے تو یہ تقوی وپرہیزگاری کی بات ہے۔

    (۲):جبری پی ایف میں تمام علما کے نزدیک اصل اور اضافہ سب شرعاً جائز ہے، ملازم بلا کسی کراہت وصول کرکے اپنے استعمال میں لاسکتا ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند