• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 148835

    عنوان: لڑکی کا اپنے بالوں کو ہلکا سا کٹوانا یا پلکیں درست کرانا؟

    سوال: (۱) اگر مونچھ کے بال اتنے بڑھ جائیں کہ پانی میں ڈوب جائیں تو کیا پانی حرام ہو جاتا ہے؟ اس کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟ آیا یہ مکروہ ہے یا حرام؟ (۲) عورت کے ہونٹ میں لپسٹک لگی ہو تو کیا اس سے اس کی نماز ہو جائے گی؟ (۳) اگر بغل کے بال یا موئے زیر ناف چالیس دن سے زیادہ ہونے پر صاف نہیں کیا، تو کیا یہ حرام ہے؟ ایسے میں نماز ہو جائے گی؟ اور اسی طرح ناخون بھی خوب بڑھا رکھے ہیں کاٹتے نہیں، تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ (۴) اگر لڑکا اِسکن ٹائٹ کپڑے پہنا ہو یا کپڑے میں جاندار کی تصویر بنی ہو تو کیا یہ حرام ہے؟ ایسی صورت میں نماز ہوگی یا نہیں؟ (۵) لڑکی کا اپنے بالوں کو ہلکا سا کٹوانا یا آئی برو (پلکیں) بنوانا یا میک اَپ کرنا جائز ہے یا نہیں؟ (۶) اگر بالوں میں برابر ہیر کلر (بالوں کو رنگنا) کرواتے ہیں تو کیا ایسے میں نماز درست ہو گی؟

    جواب نمبر: 148835

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:  406-505/N=6/1438

     

    (۱): اگر مونچھ کے بال اتنے بڑھ جائیں کہ پانی پیتے وقت پانی میں ڈوبنے لگیں تو پانی حرام نہیں ہوتا؛ البتہ مونچھ کاٹنے میں چالیس دن سے زیادہ تاخیر ناجائز و گناہ ہے۔ قولہ: ”وکرہ ترکہ “: أي: تحریماً لقول المجتبی: ولا عذر فیما وراء الأربعین ویستحق الوعید اھ، وفي أبی السعود عن شرح المشارق لابن ملک: روی مسلم عن أنس بن مالکرضي الله عنه : ”وقت لنا في تقلیم الأظفار وقص الشارب ونتف الإبط أن لا نترک أکثر من أربعین لیلة“، وھو من المقدرات التي لیس للرأي فیھا مدخل فیکون کالمرفوع اھ (رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیرہ، فصل فی البیع وغیرہ، ۹: ۵۸۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔

    (۲): اگر لپسٹک میں کوئی ناپاک مادہ نہ ہو، نیز وہ کھال تک پانی پہنچنے میں مانع نہ ہو تو اس کے ساتھ وضو اور نماز دونوں درست ہیں۔

    (۳): اگر بغل کے بال یا موئے زیر ناف وغیرہ کی صفائی پر چالیس دن گذرگئے اور آدمی نے صفائی نہیں کی تو اس کا یہ عمل ناجائز ہے اور ایسا شخص گنہگار ہوتا ہے اور اس کی نماز بھی مکروہ ہوتی ہے؛ اس لیے چالیس دن سے پہلے ضرور بالضرور ان چیزوں کی صفائی کرلینی چاہیے۔ قولہ: ”وکرہ ترکہ “: أي: تحریماً لقول المجتبی: ولا عذر فیما وراء الأربعین ویستحق الوعید اھ، وفي أبی السعود عن شرح المشارق لابن ملک: روی مسلم عن أنس بن مالکرضي الله عنه : ”وقت لنا في تقلیم الأظفار وقص الشارب ونتف الإبط أن لا نترک أکثر من أربعین لیلة“، وھو من المقدرات التي لیس للرأي فیھا مدخل فیکون کالمرفوع اھ (رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیرہ، فصل فی البیع وغیرہ، ۹: ۵۸۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔

    (۴):ایسا تنگ وچست لباس پہننا جس سے اعضائے مستورہ جیسے: سرین کی ساخت نظر آئے، ناجائز ہے اور جاندار کی تصویر والا لباس بھی ممنوع ہے اور دونوں صورتوں میں نماز مکروہ ہوگی۔ إن روٴیة الثوب بحیث یصف حجم العضو ممنوعة ولو کثیفاً لا تری البشرة منہ۔ … وعلی ھذا لا یحل النظر إلی عورة غیرہ فوق ثوب ملتزق بھا یصف حجمھا(رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، فصل فی النظر والمس، ۹: ۵۲۶، ط مکتبة زکریا دیوبند)، و-کرہ- لبس ثوب فیہ تماثیل ذی روح الخ ( المصدر السابق، کتاب الصلاة، باب ما یفسد الصلاة وما یکرہ فیھا، ۲:۴۱۶)،والتمثال خاص بمثال ذی الروح…قال فی البحر:وفی الخلاصة: وتکرہ التصاویر علی الثوب صلی فیہ أو لا، انتھی، وھذہ الکراھة تحریمیة (رد المحتار، ۲: ۴۱۶)۔

    (۵): بالوں کی جڑیں کٹوانا تاکہ بالوں کی رکی ہوئی بڑھوتری شروع ہوجائے، جائز ہے اور فیشن کے طور پر بال کٹوانا یا آئی برو بنوانا درست نہیں؛ البتہ غیر محرم مردوں سے مکمل پردہ کرنے کی شرط کے ساتھ بہ قدر ضرورت زینت کے لیے میک اپ کرنے کی اجازت ہے۔

    (۶): اگر بالوں میں صرف رنگ چڑھتا ہو، کوئی ایسی پرت یا تہہ نہ جمتی ہوتی ہو جو پانی پہنچنے میں رکاوٹ ہو تو ایسے کلر کے ساتھ وضو ہوجائے گی اور نماز بھی ؛ البتہ سفید بالوں میں سیاہ خضاب ناجائز ہے اور کالے بالوں میں مختلف فیشنی کلر منع ہیں؛ کیوں کہ یہ فیشن پرستوں یا غیروں کی نقالی ہے ، دین دار مسلمانوں کو اس سے بچنا چاہیے۔ قال اللکنوي فی التعلیق الممجد (باب الخضاب ص۳۹۲):وأما الخضاب بالسواد الخالص فغیر جائز کما أخرجہ أبوداود والنسائي وابن حبان والحاکم وقال: صحیح الإسناد عن ابن عباسرضي الله عنهما  مرفوعاً: ”یکون قوم یخضبون فی آخر الزمان بالسواد کحواصل الحمام لایریحون رائحة الجنة“، … ومن ثم عد ابن حجر المکِي فی الزواجر الخضابَ بالسواد من الکبائر، ویوٴیدہ ما أخرجہ الطبراني عن أبی ا لدرداءرضي الله عنه  مرفوعاً: من خضب بالسواد سود اللّٰہ وجہہ یوم القیامة“…… اھ وقال السہارنفوري في بذل المجہود (باب ماجاء في خضاب السواد ۱۷: ۹۹،ط: دارالکتب العلمیة، بیروت) فی شرح الحدیث المذکور أعلاہ فیما نقلناہ عن التعلیق الممجد: وفی الحدیث تہدید شدید في خضاب الشعر بالسواد، وہو مکروہ کراہة تحریم اھ وفی العرف الشذي (باب ماجاء فی الخضاب۳: ۲۵۸): الخضاب فی اللغة اللون، ولایجب أن یکون سواداً، وفی الحدیث النہي الشدید عن الخضاب الأ سود الذي لایمیزبہ بین ا لشیخ والشاب اھ، ویکرہ- الخضاب- بالسواد، وقیل: لا، ومرّ فی الحظر (الدر المختار مع رد المحتار، مسائل شتی۱۰: ۴۸۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، وفی الرد:قال الحموي:وہذا فی حق غیر الغزاة، ولا یحرم في حقہم للإرہاب، ولعلہ محمل من فعل ذلک من الصحابة ط اھ،نیز احسن الفتاویٰ (۸:۳۵۶-۳۷۵)، فتاویٰ رشیدیہ (ص۴۸۹) ، فتاویٰ دارالعلوم دیوبند (۱۶: ۲۳۹-۲۴۵) اور امداد الفتاویٰ (۴: ۲۱۸) وغیرہ دیکھیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند