• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 148193

    عنوان: کام کا عوض بغیر بتائے لینا

    سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میں ایک مدرسے میں پڑھاتا ہوں تدریس کے ساتھ ساتھ چونکہ مجھے کمپیوٹر کا کام بھی آتا ہے اس لیے مجھ سے مدرسے والے کمپیوٹر کا سارا کام لیتے ہیں مثلا کوئی خط وغیرہ لکھنا ، امتحانی سارے کام رقم الجلوس بنانا طلباء کا کشف الحضور بنانا اس کے بعد نتائج بنانا وغیرہ یہ سارے کام میں کرتا ہوں۔حالانکہ مجھے رکھا صرف اور صرف تدریس کے لیے گیا ہے اور کتنی بار کہا بھی کہ اس کے بھی کچھ پیسے دیں لیکن آگے سے صرف مسکراہٹ ملتی ہے ، اور کبھی کہا جاتا ہے کہ کوئی کام اللہ کی رضا کے لیے بھی کرنا چاہیے وغیرہ، بہرحال مجھے یہ پوچھنا کہ آیا میرے پاس اگر مدرسے کے کچھ پیسے آجائیں یا مجھے کوئی دیتا ہے کہ یہ اپنے مدرسے میں دے دینا تو ان کو جتنے میرے کام کے پیسے بنتے ہیں لے لوں اور باقی مدرسے میں دیدوں تو کیا میرا ایسا کرنا جائز ہوگا ؟ اور میرے لیے وہ پیسے حلال ہونگے یا نہیں ؟میں نے یہ مسئلہ سنا ہے کہ اگر آپ کا کسی پر حق ہے تو آپ اس کو بتائے بغیر اگر وہ نہ دے رہا ہو تو اس کے مال میں سے لے سکتے ہیں۔تو یہاں پر بھی میرا حق ہے کہ اگر میرے سے کپیوٹر کا کام لیا جاتا ہے تو اس کے الگ سے پیسے دیئے جائیں ۔اور میں کچھ کر نہیں سکتا اس لیے کہ میں نے اسی مدرسے میں پڑھا بھی ہے اس لیے سب استاد ہیں کچھ زیادہ کہہ بھی نہیں سکتا ۔واجرکم علی اللہ تعالیٰ۔اللہ تعالیٰ آپ کا حامی وناصر ہو،جزاکم اللہ خیرا

    جواب نمبر: 148193

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 543-538/L=5/1438

    صورت مسئولہ میں جب تک آپ اور مدرسہ کے ذمہ دار کے درمیان اجارہ کا معاملہ طے نہیں ہوجاتا اس وقت تک آپ کی حیثیت اجیر کی نہ ہوگی آپ متبرع شمار ہوں گے، البتہ آپ کو یہ اختیار ہوگا کہ آپ کمپیوٹر سے متعلق کام سے منع کردیں جب تک کہ اجرت نہ طے ہوجائے اور اجرت جب تک طے نہ ہوجائے آپ کا حق متعلق نہ ہوگا اس لیے آپ کے لیے یہ جائز نہیں کہ چندہ کی رقم سے اپنی محنت وصول کرلیں، ویسے بھی مدرسہ میں دی جانے والی ہررقم ایسی نہیں ہوتی کہ اس کو تنخواہ میں استعمال کیا جائے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند