• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 146744

    عنوان: بٹ کوئن یا کسی بھی ڈیجیٹل کرنسی كا حكم؟

    سوال: آپ نے بٹ کوئن (bitcoin) کے بارے میں سنا ہوگا، یہ ڈیجیٹل کرنسی ہے اس کی قیمت سونے کی طرح اوپر نیچے ہوتی ہے، پانیچ سال پہلے اس کی قیمت صرف پانچ ڈالر تھی اور اب ۷۵۰/ ڈالر ہے۔ اس کے بعد اور بہت ساری ڈیجیٹل کرنسیوں نے مارکیٹ میں جنم لیا جیسے اِتھیریوم (ETHEREUM) ، داش (DASH) اور ایسی بیش بہا کرنسیاں وجود میں آئیں، یہ ساری کرنسیاں بٹ کوئن (bitcoin) کے عوض خریدی جاتی ہیں اور اوپر نیچے منافع کم کرکے بیچ دیئے جاتے ہیں۔ کچھ مشہور ویب سائٹس جہاں بٹ کوئن کے بارے میں آپ پڑھ سکتے ہیں وہ ویب سائٹ https://blockchain.info/\nhttps://www.coinbase.com جہاں بٹ کوئن کے عوض باقی کوئن کی خرید و فروخت ہوتی ہے وہ بھی کافی ہیں، کچھ مثال کے طور پر درج ذیل ہیں: https://poloniex.com/exchange\nhttps://btc-e.com ۔ اسی سے متعلق میرے دو سوالات ہیں: (۱) کیا میں اپنی کچھ رقم بٹ کوئن کی صورت میں محفوظ کر سکتا ہوں جیسے کہ لوگ سونا یا مال و زر کی صورت میں محفوظ رکھتے ہیں یا زمین جائداد کی صورت میں، کیونکہ یہ بٹ کوئن کی اپنی قیمت بڑھا رہا ہے، پانچ سال پہلے ۵۰۰/ پاکستانی روپئے کا تھا اور آج ۷۰/ ہزار روپئے کا ہے۔ (۲) کیا اس بٹ کوئن کے عوض میں تجارت کر سکتا ہوں؟ مجھے علم ہے کہ فیروکس (forex) تو حرام ہے، شاید کچھ صورتیں اُس میں حلال ہوں مگر میں شک کی بنیاد پر فیروکس (forex) نہیں کرتا، مگر کیااس بٹ کوئن کی تجارت بھی حرام ہے جب میرا مقصد بٹ کوئن کے عوض کوئی کوئن خرید کر اس کو اپنے پاس رکھنا ہے اور جب اس کی قیمت بڑھ جائے تو واپس بیچ کر بٹ کوئن کی صورت میں منافع کما لینا ہے۔ میں نے ایکسچینج کے معاملے میں فتویٰ پڑھا ہے اور پوچھا بھی ہے کہ ڈالر اور پاوٴنڈ یورو کے بارے میں، میں لوگوں سے سستا لے کر آگے مہنگا بیچتا ہوں، اُن علماء نے کہا کہ ایکسچینج جائز ہے۔ برائے مہربانی میرے بٹ کوئن کے معاملے میں رہنمائی فرمائیں، میں اپنی اضافی رقم بٹ کوئن کی صورت میں سنبھالنا چاہتا ہوں، کیونکہ یہ بھی زر اور زمین کی طرح اپنی مالیت کو بڑھاتا ہے اور منافع کا سبب بنتا ہے۔

    جواب نمبر: 146744

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 238-881/N=8/1438

     (۱، ۲) : آج کل دنیا میں جو مختلف کرنسیاں رائج ہیں، وہ فی نفسہ مال نہیں ہیں، وہ محض کاغذ کا ٹکڑا ہیں، ان میں جو مالیت یا عرفی ثمنیت پائی جاتی ہے ، وہ دو وجہ سے ہے؛ ایک تو اس وجہ سے کہ ان کے پیچھے ملک کی اقتصادی چیزیں ہوتی ہیں ؛ اسی لیے ملک کی اقتصادی ترقی اور انحطاط کا کرنسی کی ویلیو پر اثر پڑتا ہے ، یعنی: اقتصاد ہی کی وجہ سے ملک کی کرنسی کی ویلیو گھٹتی بڑھتی ہے۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ ہر ملک عوام کے لیے اپنی کرنسی کا ضامن وذمہ دار ہوتا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی ملک اپنی کوئی کرنسی بند کرتا ہے تو کرنسی محض کاغذ کا نوٹ بن کر رہ جاتی ہے اور اس کی کوئی ویلیو یا حیثیت باقی نہیں رہتی۔ اب سوال یہ ہے کہ ڈیجیٹل کرنسی کے پیچھے کیا چیز ہے جس کی وجہ سے اس کی ویلیو متعین ہوتی ہے اور اس کی ترقی اور انحطاط سے کرنسی کی ویلیو گھٹتی بڑھتی ہے؟ اسی طرح اس کرنسی کا ضامن وذمہ دار کون ہے؟ نیز کرنسی کی پشت پر جو چیز پائی جاتی ہے، کیا واقعی طور پر اس پر کرنسی کے ضامن کا کنٹرول ہوتا ہے یا یہ محض فرضی اور اعتباری چیز ہے؟

    ڈیجیٹل کرنسی کے متعلق مختلف تحریرات پڑھی گئیں اور اس کے متعلق غور کیا گیا تو معلوم ہوا کہ ڈیجیٹل کرنسی محض ایک فرضی چیز ہے اور اس کا عنوان ہاتھی کے دانت کی طرح محض دکھانے کی چیز ہے اور حقیقت میں یہ فاریکس ٹریڈنگ وغیرہ کی طرح نیٹ پر جاری سٹے بازی اور سودی کاروبار کی شکل ہے، اس میں حقیقت میں کوئی مبیع وغیرہ نہیں پائی جاتی اور نہ ہی اس کے کاروبار میں بیع کے جواز کی شرعی شرطیں پائی جاتی ہیں۔

    پس خلاصہ یہ کہ بٹ کوئن یا کوئی اور ڈیجیٹل کرنسی، محض فرضی کرنسی ہے، حقیقی اور واقعی کرنسی نہیں ہے، نیزکسی بھی ڈیجیٹل کرنسی میں واقعی کرنسی کی بنیادیں صفات نہیں پائی جاتیں، نیز ڈیجیٹل کرنسی کے کاروبار میں سٹہ بازی اور سودی کاروبار کا پہلو معلوم ہوتا ہے؛ اس لیے بٹ کوئن یا کسی اور ڈیجیٹل کرنسی کی خرید اری کرنا جائز نہیں۔ اسی طرح بٹ کوئن یا کسی بھی ڈیجیٹل کرنسی کی تجارت بھی فاریکس ٹریڈنگ کی طرح ناجائز ہے؛ لہٰذا اس کاروبار سے پرہیز کیا جائے ۔

    قال اللّٰہ تعالی: وأحل اللہ البیع وحرم الربا الآیة (البقرة: ۲۷۵) ، یٰأیھا الذین آمنوا إنما الخمر والمیسر والأنصاب والأزلام رجس من عمل الشیطن فاجتنبوہ لعلکم تفلحون ( المائدة، ۹۰) ، وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: إن اللہ حرم علی أمتي الخمر والمیسر (المسند للإمام أحمد، ۲: ۳۵۱، رقم الحدیث: ۶۵۱۱) ، ﴿وَلَا تَأْکُلُوْا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ﴾ أي بالحرام، یعني بالربا، والقمار، والغصب والسرقة (معالم التنزیل ۲: ۵۰) ، لأن القمار من القمر الذي یزداد تارةً وینقص أخریٰ۔ وسمی القمار قمارًا؛ لأن کل واحد من المقامرین ممن یجوز أن یذہب مالہ إلی صاحبہ، ویجوز أن یستفید مال صاحبہ، وہو حرام بالنص (رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء، فصل في البیع، ۹: ۵۷۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند