• عبادات >> حج وعمرہ

    سوال نمبر: 167166

    عنوان: کیا قصر مناسک حج میں سے ہے؟

    سوال: میں اس سال 2018ء کو حج پر روانہ ہوا تھا، تین اگست کو انڈیا سے ، عرفات کا دن بیس اگست تھا، منی ہم انیس کو ظہر سے پہلے آئے، ہم کو مکہ آئے پندرہ روز ہوگئے تھے، منی میں بھی ہم مقیم تھے، ہم نے منی میں قصر نماز نہیں ادا کی، ہمارے قریبی رشتہ دار کہتے ہیں کہ منی عرفات حج کے پانچ دنوں میں قصر نماز ہی ہوا کرتی ہے، عرفات میں ہم مسجد نمرہ گئے ظہر سے پہلے، وہاں مجھ سے ایک چوک ہوئی، امام کی پیچھے نیت میں نے چار رکعت ظہر کی کی (مقیم سمجھ کے) امام صاحب نے دو رکعت ادا کرکے سلام پھیر ا تو میں انفرادی دو درکعت ظہر پوری کرلی، اورامام جب عصر پڑھنے لگے تو میں جگہ پر ہی بیٹھا رہا، عصر خیمے میں عصر کے وقت ادا کی، نماز کے بعد عرب حضرات جو صف میں تھے کہنے لگے یہ تم نے کیا کیا اشاروں میں میں نے بتایا کہ میں مقیم ہوں، انہوں نے کہا سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے دو رکعت، میں نے زیادہ بات نہیں کی ، اور وہاں سے چلنے لگا، کیا میرا عمل غلط تھا؟ مجھے بہت افسوس ہوتاہے جب میں سوچتاہوں ، لیکن میں نے کتاب میں پڑھاتھا کہ مسجد نمرہ میں آپ امام کے پیچھے نماز ادا کررہے ہوں تو امام جیسے پڑھائے ان کے تابع نماز ادا کرنی ہوگی اور خیمے میں ہو تو چار رکعت ادا کریں، میں نے نیت کی ان شاء اللہ، اللہ سبحانہ و تعالی پھر سے حج پر لے جائے اور مسجد نمرہ میں نماز اداکرنے کا موقع ملے تو امام کے پیچھے قصر ادا کریں گے۔ براہ کرم، رہنمائی فرمائیں۔ جزاک اللہ خیرا۔

    جواب نمبر: 167166

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:360-371/N=5/1440

    احناف کے نزدیک قرآن وسنت کی روشنی میں صحیح یہ ہے کہ قصر مناسک حج میں سے نہیں ہے، یعنی: جو شخص حج میں شرعاً مسافر ہو، وہی قصر کرے گا اور جو مسافر نہ ہو، وہ قصر نہیں کرے گا؛ یعنی: محض حج کی وجہ سے قصر کا حکم نہیں ہوتا؛ اس لیے آپ جب سنہ ۲۰۱۸ء کے حج میں منی روانگی سے ۱۵/ دن پہلے ہی مکہ مکرمہ پہنچ گئے تھے تو آپ منی اور عرفات میں بھی مقیم تھے۔ اور مقیم شخص اگر مسافر کی اقتدا کرے تو وہ ظہر کی نماز ۴/ رکعت ہی ادا کرتا ہے ، امام کی طرح صرف ۲/ رکعت نہیں پڑھ سکتا؛ اس لیے اگر آپ کا امام مسافر تھا، وہ محض حج کی وجہ سے قصر نہیں کررہا تھا تو آپ کی ظہر کی نماز ہوگئی اور آپ نے جو کیا، بالکل صحیح کیا، اور جن لوگوں نے آپ پر نکیر کی، ان کی نکیر غلط تھی اور لا علمی پر مبنی تھی ؛ البتہ آپ کو ظہر کی طرح عصر کی نماز بھی امام ہی کے ساتھ پڑھ لینی چاہیے تھی۔ اور اگر آپ کا امام شرعاً مسافر نہیں تھا، وہ صرف حج کی وجہ سے قصر کررہا تھا تو آپ کی ظہر کی نماز نہیں ہوئی، آپ ظہر کی نماز دوبارہ ادا کریں۔

    وأطلق الإمام فشمل المقیم والمسافر؛ لکن لو کان مقیماً کإمام مکة صلی بھم صلاة المقیمین ولا یجوز لہ القصر ولا للحجاج الاقتداء بہ۔ قال الإمام الحلواني: کان الإمام النسفي یقول: العجب من أھل الموقف یتابعون إمام مکة في القصر فأنی یستجاب لھم أو یرجی لھم الخیر وصلاتھم غیر جائزة؟ قال شمس الأیمة: کنت مع أھل الموقف فاعتزلت وصلیت کل صلاة في وقتھا وأوصیت بذلک أصحابي، وقد سمعنا أنہ یتکلف ویخرج مسیرة سفر ثم یأتي عرفات، فلو کان ھکذا فالقصر جائز وإلا لا، فیجب الاحتیاط اھ ملخصاً من التاترخانیة عن المحیط (رد المحتار، کتاب الحج، ۳:۵۲۰، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند