• عبادات >> حج وعمرہ

    سوال نمبر: 156126

    عنوان: کسی اور کے بدلے حج كرنا؟

    سوال: حضرت، کسی اور کے بدلے یا کسی دوسرے کے نام سے حج بدل کرنا اسلام میں کیسا ہے اور کیوں؟ اور کیا یہ قرآن اور حدیث سے ثابت ہے؟

    جواب نمبر: 156126

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 185-156/D=2/1439

    جو شخص ایسا معذور ہو کہ اپنا حج فرض خود ادا نہ کرسکتا ہو اور نہ ہی آئندہ حج کرنے کی قدرت پیدا ہونے کی امید ہو تو وہ دوسرے کو اپنی طرف سے حج بدل کے لیے بھیج سکتاہے یا وصیت کرسکتا ہے کہ اس کے انتقال کے بعد اس کے مال سے دوسرے کوحج کے لیے بھیج دیا جائے ایسی صورت میں دوسرے کا حج بدل کرنا جائز ہے اور اس کے کرنے سے موکل کا فریضہ حج ادا ہو جائے گا۔

    عن ابن عباس قال ان امرأة من خثعم قالت یارسول اللہ ان فریضة اللہ علی عبادہفی الحج ادرکت ابی شیخا کبیرا لایثبت علی الراحلہ أفأحج عنہ قال نعم وذالک فی حجة الوداع متفق علیہ مشکاة ص: ۲۲۱، اس حدیث میں سوال کرنے والی خاتون نے یہ دریافت کیا کہ میرے والد شیخ فانی ہیں سواری پر بیٹھ نہیں سکتے کیا میں ان کی طرف سے حج ادا کردوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں تم ان کی طرف سے حج کردو۔

    وعنہ قال اتی رجل النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال ان اختی نذرت ان تحج وانہا ماتت فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم لوکان علیہا دین أکنت قاضیہ قال نعم قال فاقض دین اللہ فہو أحق بالقضاء متفق علیہ مشکاة ص: ۲۲۱۔

    ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میری بہن نے حج کرنے کی منت مانی تھی لیکن ان کا انتقال ہوگیا اور منت پوری نہ کرسکیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر ان پر کسی کا قرض ہو تا تو تم ادا کرتے یا نہیں؟ سائل نے کہا کہ ہاں میں ادا کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی کا قرض کا ادا کیا جانا اور ضروری ہے۔

    (۲) اسی طرح آدمی خود نفل حج وغیرہ کرکے دوسرے کو اس کا ثواب پہونچا سکتا ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند