• عبادات >> حج وعمرہ

    سوال نمبر: 148371

    عنوان: دوسرے کے خرچ سے عمرہ

    سوال: ایک مسئلہ کے سلسلہ میں آپ سے افتاء طلب ہے ۔ اللہ تعالی آپ کے علم میں اضافہ فرمائے ۔ جزاکم اللہ خیر۔ (۱) زید اور بکر دو پڑوسی ہے ، بکر کی بیٹی کا نکاح زید کی بیٹے سے مارچ ۲۰۱۵ میں ہوا تھا۔ بکر کی خواہش تھی کہ اس کی بیٹی اور داماد نفل عمرہ شادی کے بعد کریں۔جس کی رقم بکر نے برداشت کی کیونکہ بکر تجارت کی وجہ سے عمرہ نہیں جا سکتا تھا اس لئے اس نے زید سے گذارش کہ وہ نئے جوڑے کو عمرہ لے جائے ، زید خلیج میں ۲۸ سال گزار کر ہندوستان آیا تھا وہ بہت اچھی جگہ ملازم تھا وہاں فیملی کے ساتھ رہتا تھا ۔ ان ۲۸ سالوں میں اسنے دو عمرہ کئے تھے ۔ جبکہ وہ ہر مہینہ آسانی سے کرسکتا تھا۔ زید بار بار نفل عمرہ کرنے سے زیادہ دوسرے فرائض (تبلیغ/خدمت خلق) کو افضل سمجھتا ہے ۔ (۲) بکر کے اصرار پر بکر ہی کی دی گئی رقم تین لاکھ سے نئے جوڑے کے ساتھ زیدنئے جوڑے کے ساتھ عمرہ ادا کر نے گیا۔ (۳) واپسی پر زید نئے جوڑے کو جدہ سے امارات سیر کرانے ، اپنے خرچ(تقریبا ڈیڑھ لاکھ روپیہ) پر لے گیا اور ہندوستان پہنچنے پر زید نے کسی طرح کا تقاضا نہیں کیا۔ مگر زید نے بکر کو زبانی خرچ کی تصیل بتادیا۔ (۴) کسی وجہ سے بکر کی بیٹی نے ایک سال بعد (مارچ ۲۰۱۶ )خلع لے لیا۔ (۵) خلع کی وجہ سے بکر اب ۱۳ مہینے بعد تقاضا کر رہا ہے کہ اس نے عمرہ کی رقم قرض حسنہ کے طور پر دی تھی۔ لہذا اسے یہ رقم واپس چاہیئے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ بھی ہو بغیر لکھا پڑھی کے لین دین نہیں ہونا چاہیئے تھا۔اب اس مسئلہ کو کس طرح سے حل کیا جائے ۔

    جواب نمبر: 148371

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 310-323/N=5/1438

    سوال میں جو تفصیل لکھی گئی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بکر نے محض اپنی مرضی وخوشی سے اپنی بیٹی، داماد اور سمدھی(: زید) تینوں کو اپنے خرچے سے عمرہ مبارکہ کے سفر پر بھیجا اور تین لاکھ روپے کی شکل میں سارا خرچہ اس نے خود برداشت کیا، جب کہ سوال کے اخیر میں بکر کا دعوی یہ نقل کیا گیا کہ اس نے تین لاکھ روپے بہ طور قرض حسنہ دیے تھے؟ پس یہ معاملہ نزاعی ہوگیا، ایسی صورت میں بکر کی ذمہ داری ہے کہ اگر دوسرا فریق اس کے دعوے کو قبول نہیں کرتا ہے تو وہ اپنے دعوے کو شرعی گواہوں کی گواہی سے ثابت کرے کہ اس نے تینوں کو یا زید کو تین لاکھ روپے بہ طور قرض حسنہ دیے تھے، اور اگر بکر اپنے دعوے پر شرعی گواہ پیش نہ کرسکے تو دوسرے فریق کو قسم کھانی ہوگی، اور یہ ساری کاروائی کسی شرعی پنچایت یا چند علمائے کرام کی جماعت کے سامنے ہوگی؛ لہٰذا مسئلے کے حل کے لیے علاقہ کی شرعی پنچایت یا چند معتبر علما کی جماعت سے رجوع کیا جائے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند