• عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت

    سوال نمبر: 66180

    عنوان: کیا مردوں کے لیے اپنے سرکو ڈھانپ کر کھانا پینا سنت ہے؟

    سوال: (۱) براہ کرم، کھانے پینے کی تمام سنتوں کی فہرست فراہم کریں؟ (۲) کیا مردوں کے لیے اپنے سرکو ڈھانپ کر کھانا پینا سنت ہے؟یا یہ صرف آداب میں داخل ہے؟جزاک اللہ

    جواب نمبر: 66180

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 908-894/N=9/1437 کھانا کھانے اور پانی پینے کی سنتیں جناب حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحب  نے اپنی کتاب: ”پیارے نبی کی پیاری سنتیں“ میں جمع فرمادی ہیں اور حاشیہ میں حوالجات بھی ہیں اور یہ کتاب ہندوستان کے کتب خانوں میں بھی دستیاب ہے؛ لہٰذا اسے حاصل فرماکر اس کا مطالعہ فرمائیں۔ (۲) : حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول ننگے سر رہنے کا نہیں تھا؛ بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) عمامہ اور ٹوپی یا صرف عمامہ یا صرف ٹوپی کا اہتمام فرماتے تھے جیسا کہ زاد المعاد (فصل فی ملابسہ صلی اللہ علیہ وسلم، ۱: ۱۳۵ مطبوعہ موٴسسة الرسالة بیروت) میں ہے۔ اورکھانے کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ننگے سر رہنا ثابت نہیں، اور کھانے کے ادب کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ سر پر کوئی چیز ہونی چاہیے؛ اس لیے کھانے کے وقت ننگے سر نہ رہنا چاہیے، بلکہ سر پر ٹوپی وغیرہ کے ساتھ کھانا کھانا چاہیے، یہ مستحب وبہتر ہے، اور اگر کوئی ننگے سر کھاتا ہے تو ایک روایت کے مطابق مکروہ ہے، لیکن مختار قول یہ ہے کہ مکروہ نہیں، البتہ خلاف ادب اور خلاف اولی ضرور ہے، قال في تکملة البحر الرائق (۸: ۳۳۸ ط مکتبہ زکریا دیوبند) : والأکل مکشوف الرأس․․․ فیہ روایتان، والمختار أنہ لا یکرہ اھ، وقال في الہندیة (۵: ۳۳۷ ط مکتبہ زکریا دیوبند) : ولا باس بالأکل مکشوف الرأس وہو المختار کذا في الخلاصة اھ، ومثلہ في البزازیہ (مع الہندیة ۶: ۳۶۵) ورد المحتار (۹: ۴۹۰، ط: مکتبہ زکریا دیوبند)، وقال في الرد (کتاب الصلاة، باب ما یفسد الصلاة وما یکرہ فیہا ۲: ۴۳۰، ۴۳۱، مطلب: کلمة ”لا بأس“ دلیل علی أن المستحب غیرہ لأن البأس الشدة) : قولہ: ”ولا بأس الخ“ : فيہذا التعبیر کما قال شمس الأئمة إشارة إلی أنہ لا یوٴجر ویکفیہ أن ینجو رأسا برأس اھ، قال فی النہایة: لأن لفظ ”لا بأس“ دلیل علی أن المستحب غیرہ؛ لأن البأس الشدة اھ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند