• عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت

    سوال نمبر: 6298

    عنوان:

    کیا احادیث سے اس بات کا کوئی ثبوت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے: اللہم انی ظلمت نفسی ظلما کثیرا الخ نماز کے قعدہ میں درود شریف کے بعد پڑھاہے ؟ اگر نہیں پڑھا ہے، تونماز کے قعدہ میں درود شریف کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کون سی دعا پڑھی؟ (۲) کیا احادیث سے اس بات کو کوئی ثبوت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنفی دعاء قنوت (یعنی اللہم انا نستعینک․․․․․اللہم ایاک نعبد و․․․․․․) نماز وتر میں پڑھی ہے؟ برائے کرم ترجمہ کے ساتھ حدیث سے حوالہ عنایت فرماویں۔

    سوال:

    کیا احادیث سے اس بات کا کوئی ثبوت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے: اللہم انی ظلمت نفسی ظلما کثیرا الخ نماز کے قعدہ میں درود شریف کے بعد پڑھاہے ؟ اگر نہیں پڑھا ہے، تونماز کے قعدہ میں درود شریف کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کون سی دعا پڑھی؟ (۲) کیا احادیث سے اس بات کو کوئی ثبوت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنفی دعاء قنوت (یعنی اللہم انا نستعینک․․․․․اللہم ایاک نعبد و․․․․․․) نماز وتر میں پڑھی ہے؟ برائے کرم ترجمہ کے ساتھ حدیث سے حوالہ عنایت فرماویں۔

    جواب نمبر: 6298

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 788=720/ ل

     

    بخاری شیرف میں ہے: عن أبي بکر الصدیق أنہ قال لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: علّمني دعاءً أدعوا بہ في صلاتي قال: قل اللھم إنی ظلمت نفسي ظلمًا کثیر ولا یغفر الذنوب إلا أنت فاغفر لي مغفرة من عندک وارحمني إنک أنت الغفور الرحیم (بخاری شریف، رقم الحدیث: ۸۳۴) ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مجھے کوئی ایسا دعا بتادیجیے جس کو میں اپنی نماز میں کہا کروں، تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہو، اللہم إنيظلمت نفي الخ پتہ چلا کہ مذکورہ بالا دعاء احادیث صحیحہ صریحہ سے ثابت ہے، البتہ نماز میں اسی دعا ئکی تخصیص نہیں ہے، بلکہ قرآن حدیث میں وارد کوئی بھی دعا پڑھ سکتے ہیں، چنانچہ ابن خزیمہ کی روایت ہے: عبد اللہ بن طاوٴس عن أبیہ أنہ کان یقول بعد التشہد کلمات یعظمہن جدًا قلت في الاثنین کلیہما قال: بل في التشہد الأخیر قلت ما ہي؟ قال أعوذ باللہ من عذاب القبر الخ وأخرجہ مسلم عن أبي ہریرة رضی اللہ عنہ مرفوعا: إذا تشہد أحدکم فلیقل فذکر نحوہ اور تنویر الابصار میں ہے: ودعا بالأدعیة المذکورة في القرآن والسنة الخ اور فتح الباری میں ہے: وما ورد الإذن فیہ أن المصلي یتغیر من الدعاء ما شاء یکون بعد ہذہ الاستعادة وقبل السلام (فتح الباری: وما ورد الإذن فیہ أن المصلي یتغیر من الدعاء ما شاء یکون بعد ہذہ الاستعادة وقبل السلام (فتح الباری: ج۲ ص۴۰۴) پتہ چلا کہ دعاء میں آدمی مختار ہے، کوئی بھی منقول دعاء کرسکتا ہے، نیز یہ بھی پتہ چلا ہے کہ دعاء کا محل سلام سے پہلے ہے۔

    (۲) عن ابن وھب عن معاویة بن صالح عن عبدالقادر ہو ابن عبد اللہ عن خالد بن أبي عمران قال: بینما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یدعو علی مضر إذ جاء ہ جبرئیل فأومأ إلیہ أن أسکت فسکت فقال یا محمد إن اللہ لم یبعثک سبابًا ولا لعانًا وإنما بعثک رحمة ولم یبعثک عذابًا لیس لک من الأمر شيء أو یتوب علیھم أو یعذبھم فإنہم ظالمون قال: ثم علمہ ہذا القنوت اللہم إنا نستعینک الخ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ مضر پر بد دعا کررہے تھے کہ جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور آپ کو خاموش ہونے کو کہا، تو آپ علیہ السلام خاموش ہوگئے، پھر کہا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ نے آپ کو گالم گلوج کرنے والا اور لعن طعن کرنے والا بناکر نہیں بھیجا، آپ کو اللہ نے رحمت بناکر بھیجا ہے عذاب بناکر نہیں۔ آپ کو کچھ اختیار نہیں اللہ ان کو معاف کرے یا عذاب دے کہ وہ ظالم ہیں۔ راوی کہتے ہیں پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ کو اس قنوت اللھم إنا نستعینک الخ کی تعلیم دی۔ (المدونة الکبری: ج۱ ص۱۰۰) نیز مصنف ابن ابی شیبہ، مراسیل ابوداوٴد، سنن بیہقی، کنز العمال، اتقان وغیرہ میں اس قنوت کا ذکر موجود ہے، تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو۔ (اعلاء السنن: ۶/۸۹-۹۰)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند