• عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت

    سوال نمبر: 62528

    عنوان: ناخن کاٹنے کا سنت طریقہ

    سوال: میں نے آپ کے فتوی میں پڑھا ہے کہ ناخن کاٹنے کا کوئی خاص طریقہ /سنت نہیں ہے، لیکن میں نے تبلیغی جماعت والوں سے ناخن کاٹنے کا سنت طریقہ کئی بار سناہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے دائیں ہاتھ کی شہادت والی انگلی سے شروع کرے اور چھوٹی انگلی تک کاٹے ، اس کے بعد بائیں ہاتھ میں چھوٹی انگلی سے شروع کرے اور انگوٹھے تک ناخن کاٹے ، آخرمیں دائیں ہاتھ کے انگوٹھے کا ناخن کاٹے ۔ براہ کرم، اس پر روشنی ڈالیں۔جزاک اللہ

    جواب نمبر: 62528

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 105-105/Sd=3/1437-U صحیح یہی ہے کہ ناخن کاٹنے کا کوئی طریقہ سنت سے ثابت نہیں ہے، جو طریقہ آپ نے تبلیغی جماعت والوں سے سنا ہے، امام غزالی  نے احیاء العلوم میں اس طریقے کو ذکر کیا ہے اور اس کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ طریقہ سنت ہے؛ لیکن محققین، مثلا: حافظ ابن حجر، علامہ سیوطی، علامہ ابن دقیق العید، ابو عبد اللہ المارزی المالکی، علامہ نوی رحمہم اللہ کی رائے یہی ہے کہ ناخن کاٹنے میں سنت سے کوئی طریقہ ثابت نہیں ہے؛ البتہ علامہ نووی نے لکھا ہے کہ مستحب یہ ہے کہ پہلے دائیں ہاتھ کے ناخن کاٹے جائیں پھر بائیں ہاتھ کے۔ قال الحصکفي: وفي شرح الغزاویة: روي أنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بدأ بمسبحتہ الیمنی الی الخنصر، ثم بخنصر الیسری الی الابہام، وختم بابہام الیمنی۔ و ذکر لہ الغزالي في الاحیاء وجہا وجیہا۔۔۔ قلتُ: وفي المواہب اللدنیة: قال الحافظ ابن حجر: انہ یستحب کیفما احتاج الیہ، ولم یثبت في کیفیتہ شيء، ولا في تعیین یوم لہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ قال ابن عابدین: قولہ: (قلتُ الخ) وکذا قال السیوطي، وقد أنکر الامام ابن دقیق العید جمیع ہذہ الأبیات، وقال: لا تعتبر ہیئة مخصوصة، وہذا لا أصل لہ في الشریعة، ولا یجوز اعتقاد استحبابہ؛ لأن الاستحباب حکم شرعي لا بد لہ من دلیل۔ (الدر المختار مع رد المحتار: ۶/۴۰۶، کتاب الحضر والاباحة، فصل في البیع، ط: دار الفکر، بیروت) قال النووي: ویستحب أن یبدأ بالید الیمنی، ثم الیسری، ثم الرجل الیمنی، ثم الیسری۔ قال الغزالی في الاحیاء: یبدأ بمسبحة الیمنی، ثم الوسطی، ثم البنصر، ثم الخنصر، ثم خنصر الیسری الی ابہام الیمنی، وذکر فیہ حدیثا وکلاماً لا أوثر ذکرہ، والمقصود أن الذي ذکرہ الغزالي لابأس بہ الا في تاخیر ابہام الیمنی، فلا یقبل قولہ فیہ؛ بل یقدم الیمنی بکمالہا، ثم یشرع في الیسری، وأما الحدیث الذي ذکرہ، فباطل لا أصل لہ۔ (المجموع شرح المہذب: ۱/۲۸۳، ط: دار الفکر، بیروت)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند