عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت
سوال نمبر: 58356
جواب نمبر: 58356
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 614-579/Sn=9/1436-U (۱) حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیماری پر مطلقا علاج کرانے کی ترغیب دی، تداووا؛ فإن اللہ لم یضع داء إلا وضع لہ شفاءً (الحدیث) (مشکاة مع المرقاة، ۸/ ۳۶۱، ط: فیصل)علاج کو یونانی، انگریزی یا کسی اور طر یقے کے ساتھ خاص نہیں کیا؛ اس لیے آدمی جو بھی طریقہٴ علاج اختیار کرے گا وہ باعتبار علاج سنت پر عامل کہلائے گا بس شرط یہ ہے کہ علاج مباح چیزوں سے کیا جائے، حرام وناپاک چیزوں سے علاج سوائے سخت مجبوری کے جائز نہیں ہے۔ (۲) دوائیں بذاتِ خود موٴثر نہیں ہیں؛ بلکہ یہ بھی اللہ کے حکم سے اثر کرتی ہیں، علاج اور دوا تو ایک و سیلہ اور سبب ہے، اگر کوئی دوا استعمال کرنے پر شفا حاصل نہیں ہوئی تو کوئی اعتراض کی بات نہیں ہے، اس کے ساتھ مصلحت خداوندی کا تقاضا یہی ہوا ہوگا کہ شفا نہ ہو، قرآن وحدیث میں کہیں نہیں آیا کہ دوا سے شفا یقینا حاصل ہوگی۔ وعن جابر قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لکل داء دواء، فإذا أصیب دواء الداء، برأ بإذن اللہ رواہ مسلم (مشکاة مع المراقة، ۸/۳۴۰)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند