• عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت

    سوال نمبر: 51679

    عنوان: کیا یہ عقائد قرآن اور سنت سے ثابت ہیں؟

    سوال: کیا یہ عقائد قرآن اور سنت سے ثابت ہیں؟ (۱) آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے نبی ہیں؟ (۲) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کو آدم علیہ السلام کی خلقت سے پہلے بلکہ دنیا کی خلقت سے پہلے ہی اللہ تعالی نے پیدا فرمایا۔ (۳) آدم علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے دعا کی ۔ براہ کرم، قرآن کریم اور حدیث کے حوالے لکھیں۔

    جواب نمبر: 51679

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 461-402/D=5/1435-U (۱) آپ صلی اللہ علیہ وسلم انبیاء میں خلقت کے اعتبار سے سب سے مقدم ہیں اور بعثت کے اعتبار سے سب سے موٴخر ہیں، چنانچہ ترمذی شریف میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: عن أبي ہریرة قال: ”قالوا: یا رسول اللہ متی وجبت لک النبوة؟ قال: ”وآدم بین الروح والجسد“․ قال العلامة أنور شاہ الکشمیري رحمہ اللہ في العرف الشذي: أي کان النبي صلی اللہ علیہ وسلم نبیا وجرت علیہ أحکام النبوة من ذلک الحین بخلاف الأنبیاء السابقین، فإن الأحکام جرت علیہم بعد البعثة کما قال مولانا الجامي أنہ کان نبیا قبل النشأة العنصریة (ترمذي شریف مع العرف الشذي، أبواب المناقب، باب ما جاء في فضل النبی صلی اللہ علیہ وسلم، ۲/۵۲۵، ط: شیخ الاسلام) (۲) پہلے پیدا کیے جانے کے سلسلے میں احادیث میں مختلف چیزیں مذکور ہیں، بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے نور کو پیدا کیا گیا جب کہ دیگر بعض روایتوں میں قلم، عرش وغیرہ سب سے پہلے پیدا کیے جانے کی صراحت ملتی ہے، البتہ ابن حجر رحمہ اللہ نے سب سے پہلے نور کو پیدا کیے جانے کا رجحان ظاہر کیا ہے، قال ابن حجر: اختلفت الروایات في أول المخلوقات، وحاصلہا کما بینتہا في شرح شمائل الترمذي: أن أوّلہا النور الذي خلق منہ علیہ الصلاة والسلام، ثم الماء ثم العرش․ (مرقاة شرح مشکاة ۱/۲۴۱، اشرفی دیوبند) (۳) البدایہ والنہایہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: عن عمر بن الخطاب قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ”لما اقترف آدم الطیئة قال: یا رب أسئلک بحق محمد أن غفرت لي، فقال اللہ فکیف عرفت محمدًا ولم أخلقہ بعد فقال یا رب لأنک لما خلقتني بیدک ونفخت في من روحک ورفعت رأسي فرأیت علی قوائم العرش مکتوبا لا إلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ فعلمت أنک لم تضف إلی اسمک إلا أحبّ الخلق إلیک، فقال اللہ صدقت یا آدم إنہ لأحب الخلق إلي وإذ سألتني بحقہ فقد غفرت لک ولولا محمد ما خلقتک․ (البدایہ والنہایة، باب ما ورد في خلق آدم علیہ السلام، ۱/۸۱) مذکورہ حدیث سے حضرت آدم علیہ السلام کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے دعا کرنے کا ثبوت ہوتا ہے، یہ حدیث اگرچہ ضعیف ہے چنانچہ امام بیہقی فرماتے ہیں: تفرد بہ عبد الرحمن بن زید بن أسلم من ہذا الوجہ وہو ضعیف․ (البدایہ والنہایہ: ۱/۸۱) لیکن فضائل کے باب میں اس قدر ضعف قادح نہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند