• عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت

    سوال نمبر: 49626

    عنوان: مجھے ایک حدیث کی وضاحت درکار ہے جو ”کتاب فقہ الحدیث“ مصنفہ ”حضرت سید اصغر حسین“ مفتی دوبان انڈیا میں مذکور ہے

    سوال: مجھے ایک حدیث کی وضاحت درکار ہے جو ”کتاب فقہ الحدیث“ مصنفہ ”حضرت سید اصغر حسین“ مفتی دوبان انڈیا میں مذکور ہے۔ حدیث یوں ہے” حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ : ازواج مطہرات بال لمبے ہونے پر اتنے قطع کرلیتی تھیں کہ ”وفرہ معلوم ہوتے تھے یعنی کانوں کی لو تک آ جاتے تھے“ گویا کہ انھوں نے مسئلہ بتایا ہے کہ عورت بال کاٹ سکتی ہے جب لمبے ہو جائیں، کانوں کی لو تک۔ یہ تو بتایا ہے کہ سر مونڈ نہیں سکتی لیکن کاٹ سکتی ہیں کانوں کی لو تک جب کہ اس کے بر عکس آپ کا فتوی کچھ اور بتاتا ہے۔ وضاحت فرمائیں ۔

    جواب نمبر: 49626

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 485-485/M=5/1435-U عورتوں کے لیے سر منڈانا اور بال کٹانا دونوں ممنوع ہیں، جس حدیث کا حوالہ سوال میں ہے وہ مسلم شریف کی حدیث ہے جس کے الفاظ یہ ہیں ”عن أبي سلمة بن عبد الرحمن ․․․ قال وکان أزواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم یأخذن من روٴوسہن حتی تکون کالوفرة“ علماء نے اس حدیث کے چند معنی بیان کیے ہیں: (۱) ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن وفاتِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ عمل کرتی تھیں تاکہ یہ ترکِ زینت اس بات کی علامت بن جائے کہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو کسی سے نکاح کی رغبت نہیں کیوں کہ بحکم خداوندی ولا یحل لکم اں توٴذوا رسول اللہ ولاَ أن تنکحوا أزواجہ من بعدہ أبدًا، ان کا نکاح اب کسی سے نہیں ہوسکتا۔ (۲) بعض علماء نے فرمایا ہے کہ حدیث سے بالوں کا کاٹنا مراد نہیں، اس لیے کہ دیگر احادیث کی روشنی میں (مشابہت بالرجال کی بنا پر) یہ عمل ناجائز ہے بلکہ اس سے مراد بالوں کو سمیٹنا اور سر پر اس طرح جمانا ہے کہ بال نیچے نہ لٹکیں اور وفرہ معلوم ہوں (جیسا کہ ہمارے دیار میں عورتیں جوڑہ باندھتی ہیں) (۳) احرام سے حلال ہونے کے وقت انگلی کے پوروں کے بقدر بال کاٹنا مراد ہے، قلت وعندي المراد بالحدیث أن نساء النبي (صلی اللہ علیہ وسلم) کن یقصن شعروہن المسترسلة ویعقدنہا علی القفا أوعلی الرأس من غیر أن یتخذنہا قرونا وضفائر حتی تکون کالوفرة في عدم مجاوزتہا من الأذنین کما یفعلہ کثیر من العجائز والأیامی في عصرنا بل عامة النساء في حالة الاغتسال بعد غسل الرأس فإن الشعور الطویلة لو استرسلت علی حالہا بإیصال الماء إلی البدن المستور تحت الشعور المسترسلة لا بخلو عن کلفة ومشقة (فتح الملہم، ۱/۴۷۲، اشرفی)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند