• عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت

    سوال نمبر: 49293

    عنوان: کیا یہ حدیث صحیح اور قابلِ عمل ہے؟

    سوال: کیا یہ حدیث صحیح اور قابلِ عمل ہے ؟ سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 1267 حدیث مرفوع مکررات 63 بدون مکرر یعقوب بن ابراہیم دورقی و محمد بن بشار، یحیی بن سعید، عبدالحمید بن جعفر، محمد بن عمرو بن عطاء ، ابوحمید ساعدی سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آخر کی دو رکعت کے بعد کہ جن پر نماز مکمل ہوجاتی ہے اس طریقہ سے بیٹھے بایاں پاؤں دائیں جانب نکال دیتے اور اپنے ایک سرین پر زور دے کر بیٹھ جاتے پھر سلام پھیرتے ۔

    جواب نمبر: 49293

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1966-545/H=1/1435-U مذکورہ حدیث صحیح اور قابل استدلال تو ہے، لیکن یہ حالت عذر پر محمول ہے اور اولیٰ وافضل طریقہ یہ ہے کہ بایاں پیر بچھاکر اس پر بیٹھا جائے اور دایاں پیر اس طرح کھڑا کیا جائے کہ اس کی انگلیاں قبلہ کی طرف رہیں کیونکہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اسی طریقہ کو سنت کہا ہے، نسائی میں روایت ہے: عن بن عمر -رضي اللہ عنہ قال: من سنة الصلاة أن تنصب القدم الیمنی واستقبالہ بأصابعہا القبلة والجلوس علی الیسری (نسائی: ج۱ ص۱۷۳، باب الاستقبال بأطراف أصابع القدم القبلة عند القعود وللتشہد) اسی طرح حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے خاص طور سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا مشاہدہ کیا تو آپ کو دونوں قعدوں میں اسی طرح بیٹھتے پایا کیونکہ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ قعدہ اولیٰ یا ثانیہ کا فرق نہیں کرتے، ترمذی میں جلد اول ص۶۵ پر ان کی حدیث ہے،حدیث ذکر کرنے کے بعد امام ترمذی فرماتے ہیں: حسن صحیح والعمل علیہ عند أکثر أہل العلم (ترمذي جلد ۱ ص۶۵، باب کیف الجلوس في التشہد)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند