عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت
سوال نمبر: 29194
جواب نمبر: 29194
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(ل): 246=197-3/1432
حدیث موضوع اس حدیث کو کہتے ہیں جس کی کوئی اصل نہ ہو بلکہ وہ گھڑی ہوئی ہو اس حدیث پر کسی بھی حال میں عمل درست نہیں خواہ عمل کا تعلق فضائل اعمال سے ہو، الحدیث الموضوع لا أصل لہ فلا یجوز العمل بہ بحالٍ أي ولو في فضائل الأعمال (قواعد في علوم الحدیث: ۹۴) اور حدیث ضعیف اس حدیث کو کہتے ہیں جس کے اندر صحیح یا حسن کے شرائط مجتمع ہوں یعنی تعدد طرق سے بھی اس کا ضعف دور نہ ہوسکے مثلاً فسق راوی وغیرہ تو ایسی حدیث بالاتفاق احکام وعقائد کے باب میں معتبر نہیں، البتہ ترغیب وترہیب فضائل اعمال اور قصص ومواعظ کے اندر تین شرطوں کے ساتھ معتبر ہے اوراس پر عمل جائز ہے۔
(۱) ضعف شدید نہ ہو یعنی اس کا راوی کذاب یا متہم بالکذب نہ ہو۔
(۲) وہ حدیث کسی شرعی اصل کے خلاف نہ ہو۔
(۳) بوقت عمل اس کے ثبوت کا اعتقاد نہ ہو بلکہ احتیاط کا اعتقاد ہو اور علامہ زرکشی فرماتے ہیں حدیث ضعیف پر احکام کے باب میں بھی عمل کیا جائے گا، اگر اس میں احتیاط ہو کذا في تدریب الراوي للسیوطي مفصلاً: ۱/۱۶۲ ط: دارالکتب العلمیہ۔ وعبارتہ ویجوز عند أہل الحدیث وغیرہم التساہل في الأسانید وروایہ ما سوی الموضوع من الضعیف والعمل بہ من غیر بیان ضعفہ في غیر صفات اللہ تعالی والأحکام کالحلال والحرام ومما لا یتعلق لہ بالعقائد والأحکام۔ قال شیخ الإسلام، أي ابن حجر) للعمل بالحدیث الضعیف ثلاثة شروط أحدہا أن یکون الضعف غیر شدید۔ الثاني أن یندرج تحت أصل معمول بہ۔ الثالث أن لا یعتقد عند العمل بہ ثبوتہ بل یعتقد الاحتیاط وعند الزرکشی: یعمل بالضعیف أیضًا في الأحکام إذا کان فیہ احتیاط کذا في التدریب ملخصًا، مذکورہ بالا تفصیل کو اگر بنظر غائر پڑھایا جائے تو آپ کے سارے اشکالات خود بخود رفع ہوجائیں گے، مثلاً ضعیف اور موضوع کا فرق، کتاب فضائل اعمال پر اعتراض کی حقیقت اور حدیث حجت کب ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند