عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت
سوال نمبر: 171764
جواب نمبر: 171764
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 1204-1080/H=12/1440
(۱) حجاج بن ارطاة اگرچہ متکلم فیہ ہیں ، لیکن حسن درجے کے راوی ہیں، البتہ ابن اخي سعید مجہول راوی ہیں جس کی وجہ سے حدیث ضعیف ہے لیکن اس حدیث کو امام ابوداوٴد نے اپنی سنن میں ذکر کیا ہے اور اس پر سکوت اختیار کیا ہے اور امام ابوداوٴد نے اپنے رسالہ میں لکھا ہے ”مالم أذکر فیہ شیئاً فہو صالح“ (جس حدیث کے سلسلے میں ، میں کوئی بات نہ لکھوں وہ حدیث صالح ہے) (مقدمہ ابن صلاح: ۱۸۱) ۔ علامہ زاہد کوثری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ صالح سے مراد عام ہے یعنی امام ابوداوٴد کی مسکوت عنہ حدیثیں کہیں صالح للاحتجاج ہوں گی اور کہیں صالح للاعتبار ہوں گی۔ (حدیث اور فہم حدیث: ۱۹۱تا ۱۹۶) اور اسی طرح کی کتاب حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ”النکث علی ابن الصلاح“ (۱/۴۳۵تا ۴۴۵) میں لکھی ہے لہٰذا یہ حدیث کم از کم صالح للاعتبار ہوگی۔
(۲) دوسرے نمبر کی حدیث پر امام ترمذی رحمہ اللہ نے ”حسن صحیح“ کا حکم لگایا ہے، نیز یہ حدیث بخاری میں بھی ہے اور تیسرے نمبر کی حدیث پر امام ترمذی رحمہ اللہ نے ”حسن غریب“ کا حکم لگایا ہے۔
(۳) ان تینوں میں سند کے اعتبار سے سب سے قوی ، دوسرے نمبر کی حدیث ہے، پھر تیسرے نمبر کی حدیث ہے، پھر پہلے نمبر کی حدیث ہے؛ البتہ آپ عمل کرنے کے لئے مذکورہ تینوں حدیثوں کو یاد کرلیں تو بہتر ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند