• عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت

    سوال نمبر: 165956

    عنوان: احادیث کا رد و قبول

    سوال: جب حدیث کی صحت (صحیح ، حسن ، ضعیف وغیرہ )کی شرائط دو سو ھجری کے بعد مرتب کی گئیں تو دو سو ھجری سے پہلے کے راوی نے حدیث حاصل کرتے ہوئے اگر ان شرائط کا خیا ل نہیں رکھا (جو کہ ممکن بھی نہیں تھا کیونکہ ان شرائط کا تو اس زمانہ میں وجود ہی نہیں تھا) تو اس زمانہ (دو سو ھجری سے پہلے)کے راوی یا حدیث کوبعد میں آنے والے محدثین نے ضعیف کیوں کہا ؟ جیسا کہ مرسل روایات۔ جب دو سو ھجری سے پہلے کے اہل علم (اماموں اور فقہا) نے مرسل اور کمزور(بعد میں آنے والےمحدثین کی نظر میں) احادیث کو (کچھ شرائط کے ساتھ) قبول کیا تو اس زمانہ (تابعین اور تبع تابعین کے زمانہ) کی مرسل اور کمزور احادیث کی قبولیت میں محدثین میں اجماع کیوں نہیں؟ حالانکہ فقہا کا درجہ محدثین سے اونچا ہے۔ اور حدیث کے مطابق آئمہ اربعہ کا زمانہ محدثین کے زمانہ سے بہتر ہے۔ (عام فہم اور مشاہدہ کی بات ہےکہ کسی چیز کے رد یا قبول کرنے کا معیار زمانہ کے ساتھ تبدیل ہوتا رہتا ہے)

    جواب نمبر: 165956

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 127-19T/D=3/1440

    بعد کے محدثین نے ان ہی شرائط کو منقح اور مرتب کیا ہے جن کا سابق زمانے کے محدثین لحاظ کرتے آئے تھے، لہٰذا یہ کہنا کہ پہلے کا راوی ان شرائط کا لحاظ نہ کرسکتا تھا درست نہیں ہے، رہی یہ بات کہ بعد میں آنے والے محدثین نے پہلے کے راوی یا حدیث کو ضعیف یا صحیح کیوں کہا تو اس کی بنیاد یہ ہے کہ جب ہر طرح کی روایتیں (موضوع، ضعیف اور صحیح) بیان کی جانے لگیں جس سے خلط ہونے کے امکانات پیدا ہوگئے، نیز درمیان کے راویوں کے وسائط بڑھ گئے تو متاخرین نے اسماء الرجال کے فن کو وجود بخشا جس میں انہوں نے صحابہ سے لے کر تین سو (۳۰۰) ہجری تک کے تمام راویوں کے نام، ان کی ولادت ، وفات، ان کے اساتذہ اور تلامذہ کے حالات لکھے، نیز ان کا حفظ وضبط ، صدق وکذب ، امانت و دیانت کی صفات واقعات کی روشنی میں قلم بند کئے گئے، یہی اسماء الرجال کا فن محدثین کے پاس ایسا قیمتی علمی سرمایہ ہے جس سے کسی حدیث کے راویوں کے حالات اور ان کے درجات کو متعین کرکے کسی حدیث پر صحیح ، ضعیف اور موضوع ہونے کا حکم لگایا جاسکتا ہے۔

    اسماء الرجال اہل اسلام کا وہ نادر المثال کارنامہ ہے کہ شرعیات کی حیثیت سے فن حدیث پر قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کے اعتبار سے کامل یقین پیدا ہونے کا ذریعہ ہے کہ اس کے ذریعہ صحت و ضعف یا وضع کے اعتبار سے حدیثوں کا درجہ بھی متعین کیا جاسکتا ہے۔

    (۲) نیز مرسل روایات کے قبول کرنے اور نہ کرنے کا مسئلہ اجتہادی ہے، نہ پہلے والوں نے اسے مطلقاً قبول کیا ہے اور نہ بعد میں آنے والوں نے مطلقاً اسے رد کیا ہے، بلکہ مختلف شرطوں کے ساتھ بعد میں آنے والوں نے بھی قبول کیا ہے اور پہلے والوں نے بھی جن کی تفصیل علوم الحدیث کی کتابوں میں درج ہے مثلاً حاکم کی معرفة علوم الحدیث، ابن صلاح کا مقدمہ ، تدریب الراوی وغیرہ۔ اگر کسی متعین مرسل حدیث کے بارے میں معلوم کرنا ہے تو اسے صراحت سے لکھ کر حکم معلوم کریں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند