• عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت

    سوال نمبر: 165130

    عنوان: نبی صلی اللہ علیہ وسلم كی طرف سے قربانی كرنے كے سلسلے میں اہل علم كی كیا رائے ہے؟

    سوال: کسی نے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے قربانی کے مسئلہ پوچھا اور ان کا جواب یہ تھا ۔ آپ قرآن وحدیث کی روشنی میں اس مسئلہ کا تفصیل سے جواب دیں۔ درج ذیل ویب سائٹ کا پتہ ہے ۔ ( https://beta.islamqa.info/ur) (192721) نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے قربانی اور اس کے متعلق وارد حدیث کا حکم کیا یہ بات صحیح ہے کہ مسلمان نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے قربانی کرسکتا ہے ؟ اس مسئلے میں اہل علم کی کیا رائے ہے ؟ نیز درج ذیل حدیث کی صحت کیسی ہے ؟ اور اس کا جواب کیا ہو گا؟ حنش سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ: "وہ دو مینڈھے قربانی کیا کرتے تھے ، ایک ان میں سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے ہوتا اور دوسرا اپنی طرف سے ، تو آپ سے اس بابت بات کی گئی تو کہا: مجھے اس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا تھا، میں اس عمل کو کبھی ترک نہیں کروں گا" ترمذی، ابو داود Published Date: 2018-08-15 الحمد للہ: کسی کیلیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی جانب سے قربانی کرے ؛ کیونکہ عبادات میں اصل ممانعت ہے اور عبادات توقیفی ہوتی ہیں، تو جب تک عبادت کی دلیل نہیں مل جاتی عبادت نہیں کی جائے گی۔ اور سائل نے جو حدیث ذکر کی ہے اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور اسے البانی رحمہ اللہ سمیت دیگر اہل علم نے ضعیف قرار دیا ہے ، جیسے کہ اس کی تفصیل آگے آئے گی۔ امام ترمذی ( 1495) کہتے ہیں: ہمیں محمد بن عبید محاربی کوفی نے بیان کیا، انہیں شریک نے ابو خنساء سے وہ الحکم سے اور وہ حنش سے کہ: " سیدنا علی رضی اللہ عنہ دو مینڈھے قربانی کیا کرتے تھے ، ایک ان میں سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے ہوتا اور دوسرا اپنی طرف سے ، تو آپ سے اس بابت بات کی گئی تو کہا: مجھے اس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا تھا، میں اس عمل کو کبھی ترک نہیں کروں گا" امام ترمذی نے اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد کہا کہ: "یہ حدیث غریب ہے ، اور ہمیں یہ روایت شریک کے علاوہ کہیں سے نہیں ملی"۔ پھر آگے چل کر لکھتے ہیں کہ: "اسے احمد: (1219) اور ابو داود: (2790) میں شریک بن عبد اللہ القاضی سے ہی روایت کیا ہے ، لیکن اس میں حُکم کی بجائے وصیت کا ذکر ہے " ہمیں حدیث بیان کی عثمان بن ابی شیبہ نے ، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں شریک نے ابو الحسناء کے واسطے سے الحکم سے بیان کی اور وہ حنش سے بیان کرتے ہیں کہ: " میں نے علی کو دو مینڈھے عید کی قربانی کرتے ہوئے دیکھا تو میں نے انہیں کہا: یہ کس لیے ؟ تو انہوں نے کہا کہ : بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے وصیت کی تھی کہ میں ان کی طرف سے قربانی کیا کروں تو میں یہ ان کی طرف سے کر رہا ہوں" اس حدیث کی شرح میں مبارکپوری رحمہ اللہ کہتے ہیں: "منذری رحمہ اللہ کہتے ہیں: حنش ؛ ابو معتمر کنانی صنعانی ہے ، اس کے بارے میں متعدد اہل علم نے کلام کیا ہے ، ابن حبان بستی کہتے ہیں: حنش کو احادیث میں بہت زیادہ وہم لگتا تھا، انہوں نے علی سے ایسی احادیث بیان کی ہیں جو ثقہ راویوں کی احادیث سے مطابقت نہیں رکھتیں تو اسی لیے اس کا شمار ان لوگوں میں ہونے لگا جن کی احادیث حجت نہیں ہوتیں۔ اور شریک ، ابن عبد اللہ قاضی ہیں، ان پر بھی کلام ہے ، تاہم ان کی روایت کو امام مسلم نے متابعات میں نقل کیا ہے ۔ امام منذری کی گفتگو ختم ہوئی میں (مبارکپوری)کہتا ہوں کہ : ابو الحسناء جو کہ عبد اللہ کا استاد ہے ، مجہول ہے ، جیسے کہ آپ کو معلوم ہو چکا ہے تو اس لیے یہ حدیث ضعیف ہے " ختم شد " تحفة الأحوذی " اور شیخ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں : "میں یہ کہتا ہوں کہ اس حدیث کی سند ضعیف ہے ؛ کیونکہ شریک بن عبد اللہ القاضی کا حافظہ خراب تھا۔ اسی طرح حنش بن معتمر صنعانی کو بھی جمہور علمائے کرام ضعیف قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح ابو الحسناء بھی مجہول ہے ۔" ختم شد "ضعیف أبی داود" اسی طرح شیخ عبد المحسن العباد حفظہ اللہ نے بھی اس حدیث کو شرح سنن ابو داود میں ضعیف قرار دیا ہے اور اس کی وجہ سابقہ علتوں کو بنایا ہے ۔ چنانچہ جب حدیث کا ضعف ثابت ہو گیا تو اصل حکم پر عمل کرنا متعین ہو جائے گا اور وہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے قربانی کرنا جائز نہیں ہے ۔ چنانچہ اس بارے میں شیخ عبد المحسن العباد کہتے ہیں: "انسان جس وقت قربانی کرتا ہے تو وہ اس کی اپنی طرف سے اور اپنے اہل خانہ کی طرف سے قربانی ہوتی ہے ، اسی طرح انسان اپنے فوت شدگان یا بقید حیات اہل خانہ کو بھی اپنی قربانی میں شامل کر سکتا ہے ، اور اگر کوئی شخص یہ وصیت کر کے جائے کہ اس کی طرف سے قربانی کرنی ہے تو اس کی طرف سے قربانی کرے ۔ لیکن میت کی طرف سے الگ سے قربانی کی جائے تو اس کے بارے میں ہمیں کوئی دلیل معلوم نہیں ہے ، تاہم اگر کوئی اپنی قربانی میں اپنے اہل خانہ، رشتہ داروں، فوت شدگان اور بقید حیات افراد کو شامل کر لیتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ، احادیث میں اس کے دلائل موجود ہیں، تو ایسی صورت میں فوت شدگان قربانی کرنے والے کے ماتحت ہو کر قربانی میں شامل ہوں گے ۔ تو فوت شدگان کی طرف سے الگ سے قربانی کرنا ، یا ان کی وصیت کے بغیر ان کی طرف سے قربانی کرنا ؛ اس کے بارے میں مجھے کوئی دلیل معلوم نہیں ہے ۔ نیز جو حدیث ابو داود نے علی رضی اللہ عنہ سے بیان کی ہے کہ وہ دو مینڈھے قربانی کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ: نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں اپنی طرف سے قربانی کرنے کا حکم دیا تھا، تو یہ حدیث ثابت نہیں ہے ؛ کیونکہ اس حدیث کی سند میں مجہول راوی ہے اور اسی طرح مجہول راوی کے علاوہ متکلم فیہ راوی بھی ہے ۔ اور اگر کوئی انسان چاہتا ہے کہ اس کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے درجات میں بلندی ہو ، آپ کا مقام مزید بڑھ جائے تو ایسے شخص کو اپنے لیے زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرنی چاہییں؛ کیونکہ اللہ تعالی ہر شخص کی نیکی کے بدلے میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی اتنا ہی ثواب عطا کرتا ہے ، جتنا نیکی کرنے والے کو ملتا ہے ؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ہی ان نیکیوں کے بارے میں لوگوں کو بتلایا ہے ، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے : (جو شخص کسی نیکی کے کام کی رہنمائی کرے تو نیکی کرنے والے کے برابر رہنمائی کرنے والے کو بھی ثواب ملتا ہے ۔۔۔)" ختم شد ماخوذ از : شرح سنن ابو داود اور اگر اس حدیث کو صحیح مان بھی لیں ، تو پھر یہ حدیث وصیت کرنے کی صورت کے ساتھ مختص ہو گی، جیسے کہ ابو داود کی روایت میں وصیت کا صریح لفظوں میں ذکر موجود ہے ، تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی کو بھی اپنی طرف سے قربانی کرنے کی وصیت نہیں فرمائی، تو اس لیے حدیث کی نص کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے ، اس سے تجاوز ممکن نہیں ہے ۔ میت کی طرف سے قربانی کرنے کا حکم جاننے کیلیے آپ سوال نمبر: (36596) کا جواب ملاحظہ کریں۔

    جواب نمبر: 165130

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 30-76T/H=07/1440

    حدیث کے صحیح، ضعیف اور حسن ہونے کا مدار اس کی سند کے راویوں پر ہوتا ہے، اور اس حدیث کی سند میں متکلم فیہ راوی تین ہیں: (۱) ابو الحسناء ۔ (۲) شریک بن عبد اللہ الکوفی۔ (۳) حنش۔ ابوالحسناء کو حافظ ابن حجر نے تغریب میں مجہول لکھا ہے، لیکن ان سے روایت کرنے والے شریک کے علاوہ حسن بن صالح بھی ہیں، اور جب کسی سے روایت کرنے والے ایک کے بجائے دو ہو جائیں، تو اس مروی عنہ کی جہالت ختم ہو جاتی ہے، یعنی وہ مروی عنہ مجہول نہیں رہ جاتا ہے، مزید یہ کہ یحییٰ ابن معین نے بھی اس راوی پر مجہول ہونے کا حکم نہیں لگایا، اور نہ جرح و تعدیل کی کوئی بات ان کے بارے میں کہی ہے، اور ابن معین اگر کسی سے واقف ہوں، جرح و تعدیل کی بات اس کے بارے میں نہ کہیں، تو یہ اس راوی کے ثقہ ہونے کی علامت ہوتی ہے، لہٰذا اس اعتبار سے بھی ابوالحسناء مجہول نہیں ہوں گے۔ اس سند کے دوسرے راوی شریک بن عبد اللہ نخعی کوفی ہیں جن کے بارے میں حافظ ابن حجر نے تغریب میں صدوق یخطیٴ کثیرا تغیر حفظہ، کا حکم لگایا ہے، اور جس کے بارے میں حافظ یہ حکم لگائیں وہ حسن درجہ کا راوی ہوتا ہے۔ لہٰذا اس پر بھی کلام باقی نہیں رہا۔ اس سند کے تیسرے راوی حنش ابن معتمر ہیں، جن پر بعض لوگوں نے کچھ کلام بھی کیا ہے، لیکن ان کی تحسین بھی کی گئی ہے، چنانچہ امام ابو داوٴد نے ان کو ثقہ کہا ہے، لہٰذا یہ بھی کم از کم حسن درجے کے راوی ہوگئے، لہٰذا مجموعی طور پر تینوں راویوں کے احوال سے اس روایت کو ضعیف یا غریب کہنا غلط ہے، بلکہ یہ حسن درجہ کی روایت ہوگئی، جو بالاتفاق علماء کے نزدیک قابل احتجاج ہے، مزید یہ کہ بعض روایتوں سے اس مضمون کی تائید بھی ہوتی ہے، لہٰذا آپ علیہ الصلاة والسلام کی طرف سے قربانی کرنے کو ناجائز کہنا بالکل غلط ہے، اور آپ نے اس کا حکم جاننے کے لئے جس ویپ سائٹ کا حوالہ دیا ہے، اس میں اس کو جائز کہا گیا ہے۔ (اعلاء السنن: ۱۷/۲۶۸، ط: اشرفی بکڈپو دیوبند، بذل المجہود: ۹/۵۳۴، ط: مظفر پور) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند