عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت
سوال نمبر: 165101
جواب نمبر: 165101
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:31-177/sd=3/1440
ابو داوٴد میں حدیث کے الفاظ یہ ہیں : لا تدعو رکعتی الفجر وان طردتکم الخیل، اس حدیث کے ایک راوی ابن سیلان ہیں، جو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں ، محدثین کے نزدیک ابن سیلان کی تعیین میں اختلاف ہے ، بعض کے نزدیک اس سے مراد جابر بن سیلان ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ عبد ربہ ابن سیلان مراد ہیں ، جن محدثین نے بھی اس حدیث پر ضعف کا حکم لگایا ہے ، وہ ابن سیلان کے مجہول ہونے کی وجہ سے لگایا ہے ؛ لیکن ابن ابی شیبہ نے اپنی مصنف میں لکھا ہے کہ ابن سیلان سے مراد عبد ربہ ابن سیلان ہیں( مصنف ابن ابی شیبہ: ۴۹/۲، رقم : ۶۳۲۴)، لہذا جہالت مرتفع ہوگئی اور حافظ ابن حجر کے بقول عبد ربہ ابن سلان مقبول درجہ کے راوی ہیں، لہذا حدیث حسن درجہ کی ہوگی ، چنانچہ علامہ جلال الدین سیوطینے اس پر حسن ہی کا حکم لگایا ہے ۔ دیکھیے :( فیض القدیر للمناوی : ۳۹۳/۶، رقم : ۹۷۶) اور اس حدیث کا دوسرا طریق تو نہیں مل سکا؛ البتہ صحیح شواہد موجود ہیں ، بخاری اور مسلم میں حدیث ہے :
عن عائشة لم یکن النبی ﷺ علی شیء من النوافل أشبہ منہ تعاھدا علی رکعتی الفجر۔ ( صحیح البخاری ، رقم : ۱۱۶۹، صحیح مسلم ، رقم : ۷۲۴) اسی طرح نسائی میں حدیث ہے : عن أبی ھریرة رضی اللہ عنہ قال أوصانی خلیلی بثلاث : الوتر أول اللیل، ورکعتی الفجر وچوم ثلاثة من کل شھر۔ ( نسائی ، رقم : ۱۶۷۸ ) ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند