• عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت

    سوال نمبر: 164156

    عنوان: كیا ہر نیک عمل کے بعد استغفار کرنا سنت ہے ؟

    سوال: ہر نیک عمل کے بعد استغفار کرنا سنت ہے ؟ اگر سنت ہے تو برائے کرم حدیث حوالہ کے ساتھ اور اس کی صحت تفصیل سے بیان کر دیں۔ کہ نیک کام کے بعد استغفار کی کیا حکمت ہے مومن/مسلمان کے جھوٹے میں شفاء ہے ۔برائے کرم کیا یہ حدیث ہے ؟ اگر ہے تو حدیث حوالہ کے ساتھ اور اسکی صحت تفصیل سے بیان کر دیں- کیا بیوی اپنے خاوند کو اس کے نام سے بلا سکتی ہے کہ نہیں؟ حدیث کے حوالے سے وضاحت فرما دیں اَسْتَغْفِرُ اللہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّاَتُوْبُ اِلَیْہِ اس دعا سے متعلق درج ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں۔ 1۔ کیا یہ دعا احادیث کی کتابوں میں موجود ہے ؟ 2۔ اگر موجود ہے تو اس حدیث کا حوالہ اور صحت بیان فرما دیں۔ برا ئے کرم مفصل جواب دیں۔

    جواب نمبر: 164156

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 1419-167T/H=1/1440

    (۱) ہر نیک عمل کے بعد استغفار کرنا مندوب ومستحن عمل ہے، سورہٴ نصر نازل ہونے کے بعد حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اٹھتے بیٹھتے ، چلتے پھرتے، اور ہر نماز کے بعد بھی استغفار کیا کرتے تھے۔

    (۲) اُمّتیوں کے لئے نیک عمل کے بعد استغفا رکی حکمت، عمل کو کما حقہ‘ ادا نہ کرسکنے کا تدارک اور تلافی ہے۔

    (۳)مسلمان کے جھوٹے میں شفا ہے اس کا مضمون علامہ سخاوی کے نزدیک ثابت ہے البتہ سور الموٴمن شفاء کے الفاظ ذخیرہٴ احادیث میں نہیں ہیں۔

    (۴) بیوی کا اپنے خاوند کو نام لے کر پکارنا خلاف ادب اور خلاف تعظیم ہونے کی وجہ سے مکروہ ہے۔

    (۵) أستغفر اللہ ربی من کل ذنب وأتوب إلیہ کا مضمون بالکل صحیح ہے، لیکن حدیث میں اس طرح کے الفاظ نہیں مل سکے البتہ حدیث شریف میں أستغفراللہ وأتوب إلیہ کے الفاظ وارد ہوئے ہیں۔

    ۱۔ عن أم سلمة - رضی اللہ عنہا - قالت کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم- في آخر أمرہ لایقوم ولا یقعد ولا یذہب ولا یجیء إلا قال: سبحان اللہ وبحمدہ استغفر اللہ وأتوب إلیہ ۔ (تفسیر القرطبی: ۲۰/۱۵۸، ط: زکریا دیوبند)

    ۲۔ فکان یستقصر نفسہ لعظم ما أنعم اللہ بہ علیہ ویری قصورہ عن القیام بحق ذالک ذنوباً (تفسیر القرطبی: ۲۰/۱۵۹) وأنت تعلم أن کل أحد مقصر عن القیام بحقوق اللہ تعالی کما ینبغي وأدائہا علی الوجہ اللائق بجلالہ جل جلالہ ۔ تفسیر روح المعاني: ۱۵/۲۹۸، ط: اداریہ۔

    (۳) في الصحیحین أنہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ کان إذا اشتکی الإنسان الشیء أم کانت بہ قرحة أو جرح قال بإصبعہ ہکذا ، یعني وضع سبابتہ الأرض ثم رفعہا ، وقال بسم اللہ تربة أرضنا بریقة بعضا لیشفی سقیمنا بإذن ربنا (المواقیت الغالیہ: ۲/۱۲۸)۔

    (۴) ویکرہ أن یدعوا الرجل أباہ وأن تدعوا المرأة زوجہا باسمہ (الدر المختار: ۹/۵۹۹) ۔

    (۵) أستغفر اللہ وأتوب إلیہ (مسند احمد، أبوداوٴد، ابن ماجہ ، طحاوی) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند