• عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت

    سوال نمبر: 160063

    عنوان: الاستقامة فوق الکرامة کا کیا مطلب ہے؟

    سوال: کیا الاستقامة فوق الکرامة حدیث ہے ؟

    جواب نمبر: 160063

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:715-636/D=7/1439

    ”الاستقامة فوق الکرامة“ گو حدیث نہیں ہے بلکہ صوفیاء کا مقولہ ہے: ولذلک قالت الصوفیة: ”الاستقامة فوق الکرامة“ لیکن اس کا معنی صحیح اور حدیث وقولِ صحابہ سے موٴید ہے: عن سفیان بن عبد اللہ الثقفي قال: قلت یا رسول اللہ، قل لي في الإسلام قولاً لا أسأل عنہ أحدًا بعدک؟ وفي روایة غیرک، قال: ”قل أمنت باللہ ثم استقم“ رواہ مسلم․ فالاستقامة لفظ جامع، قال عمر بن الخطاب: الاستقامة أن تستقیم علی الأمر والنہي ولا تروغ روغان الثعلب یعني لا تمیل عن الطریق المستقیم میلاً أصلا وہي في غایة العسر (تفسیر المظہری: ۴/ ۴۲۹، زکریا بکڈپو دیوبند) اور استقامت کرامت سے بڑھ کر اس لیے ہے کہ کرامت نہ بزرگی کی دلیل ومعیار ہے اور نہ ہربزرگ سے اس کا صادر ہونا ضروری ہے، جب کہ استقامت ولایت وبزرگی کی دلیل ومعیار بھی ہے اور ہربزرگ کے اندر اس کا پایا جانا ضروری بھی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ پوری زندگی احکامِ شرعیہ (اوامر ونواہی) کی پابندی کرنا اور احکامِ شرعیہ پر عمل کرنے میں ہرطرح کے افراط وتفریط سے دور رہنا، نیز اعمال پر مداومت کے ساتھ اخلاقِ ظاہرہ وباطنہ کی درستگی اور فکروعقائد کی پختگی بھی ضروری ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند