• عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت

    سوال نمبر: 159826

    عنوان: موضوع روایتیں سننا اور آگے نقل کرنا؟

    سوال: مفتیان کرام سے ذہن میں نمودار ہونے والے چند شبہات و اشکالات سے متعلق تسلی بخش جوابات چاہتا ہوں۔ تنبیہ الغافلین کتاب عرصہ سے میرے مطالعے میں ہے اور اکثر اس سے مستفید ہوتا رہتا ہوں اسی طرح پیر ذوالفقار احمد نقشبندی دامت برکاتہم کے بیانات بھی عرصہ دراز سے سنتا آرہا ہوں۔ گزشتہ چند ماہ سے کچھ تحقیقات اپنے ہی اکابرین کی دیکھنے کو ملتی ہیں جن میں تنبیہ الغافلین کی روایات کو موضوع اور من گھڑت بتایا جاتا ہے ۔ اسی طرح پیر ذوالفقار احمد نقشبندی دامت برکاتہم کے بیانات میں نقل کی گئی احادیث کو بھی من گھڑت اور موضوع بتایا جاتا ہے ۔ مجھے سمجھنے میں یہ دشواری پیش آتی ہے کہ کیا فقیہ علامہ سمر قندی  کے علم میں باتیں نہیں تھی کیا اگر تھیں تو فقیہ کے درجہ پر ہوتے ہوئے بھی انہوں نے یہ موضوع روایات کیوں نقل کیں۔ اسی طرح پیرذوالفقار احمد نقشبندی دامت برکاتہم جن کا میدان ہی تزکیہ نفس اور اصلاح قلب ہے ۔ لاکھوں علماء و صلحاء ان سے بیعت ہیں۔ آخر اتنی بے احتیاطی حضرت سے ہوسکتی ہے ۔ میں نے اکثر کتابوں میں پڑھا اور علماء سے سنا کے موضوع روایات، حقیقتا جھوٹ ہوتا ہے جس کا بیان کرنا جائز نہیں۔ اب جو لوگ ایسی موضوع روایت سنتے ہیں اور آگے نقل کرتے ہیں کیا وہ گنہگار نہ ہوں گے ۔ اور جس کے ذریعے ان تک پہنچ رہی ہیں وہ اس کے ذمہ دار نہ ہوں گے ۔

    جواب نمبر: 159826

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:710-588/D=7/1439

    اس قسم کا تسامح اور سہو بڑے سے بڑے صاحب علم سے ہوسکتا ہے، فوق کل ذی علم علیم لیکن کسی متعین بات کے بارے میں کہنا کہ فلاں سے تسامح یا سہو ہوا ہے جب کہ اس کی پوری تحقیق نہ ہو نہیں کہا جاسکتا ہے۔

    فقہ سے متعلق جزئیہ ہو تو کوئی محقق یا فقیہ یا مفتی اپنی تحقیق سے اس کا اظہار کرے اور دوسرے محققین اس کی تصدیق کریں۔

    اور حدیث سے متعلق ہونے کی صورت میں کوئی محدث یا علم حدیث سے شغل رکھنے والا عالم بعد تحقیق اس کا اظہار کرے۔ اور دوسرے علمائے اسے تسلیم کرلیں کیونکہ یہ احتمال بھی تو ہے کہ یہ نقد کرنے والا ہی غلطی پر ہو۔

    ایسے شبہات کے لیے آپ مقامی عالم کی طرف رجوع کریں، بدگمانی سے بچیں اور بے کھٹک باتوں کو اختیار کریں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند