• عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت

    سوال نمبر: 152964

    عنوان: نکاح کی لوٹ یا عقد کے بعد چھوہارے لٹانا

    سوال: دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ تقریب نکاح میں چھوہارے لٹاتے ہیں، اور اسے سنت گردانتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ طریقہ صحیح سند سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ سے ثابت ہے ؟ برائے مہربانی اگر علماء کی تصحیح یا تضعیف کے ساتھ حوالہ عنایت فرمائیں تو مہربانی ہوگی۔ دوسری بات اگر یہ چیز ثابت ہے تو مسجد میں اس کے کرنے کا کیا حکم ہوگا اگر مجلس نکاح مسجد میں منعقد ہو؟

    جواب نمبر: 152964

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1163-1320/sn=1/1439

    نکاح کے موقع پر چھوہارے لٹانے سے متعلق امام بیہقی رحمہ اللہ نے تین رواتیں ذکر کی ہیں، دو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہیں اور ایک حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی پہلی روایت کے الفاظ یہ ہیں: أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تزوج بعض نسائہ فنثر علیہ التمر (سنن بیہقي، رقم: ۱۴۶۸۲) اس روایت میں ایک راوی حسن بن عمرو بن سیف العبدی بصری ہیں، امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس کے بارے میں فرمایا ”عندہ غرائب“ اور علی بن المدینی اور بخاری نے اس راوی کو ”کذاب“ کہا اور رازی نے ”متروک“ قرار دیا (لسان المیزان) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں: کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم إذا زوج أو تزوّج نثر تمرًا (سنن بیہقي، رقم ۱۴۶۸۳۰) اس روایت میں ایک راوی عاصم بن سلیمان بصری ہیں، ان کے بارے میں امام بیہقی نے فرمایا کہ محدث عمرو بن علی نے انھیں ”متہم بالکذب“ قرار دیا۔ رماہ عمرو بن علی بالکذب ونسبہ إلی وضع الحدیث (حوالہ سابق) علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کے بارے میں فرمایا: کذبہ غیر واحد (المغني في الضعفاء: ۱/۳۲۰، ط: بیروت) رہی تیسری روایت جو حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے تو اس کے اخیر میں یہ الفاظ ہیں: انتہبوا، فقال: یا رسول اللہ! لم تنہنا عن النہبة، قال: إنما نہیتکم عن نہبة العساکر، أما العرسات فلا، قال فجاذبہم النبي صلی اللہ علیہ وسلم وجاذبوہ (سنن بیہقي، رقم: ۱۴۶۸۴) اس روایت کے بعد امام بیہقی رحمہ اللہ نے فرمایا: في إسنادہ مجاہیل وانقطاع وقد روی بإسناد آخر مجہول عن عروة عائشة رضي اللہ عنہا عن معاذ بن جبل ولا یثبت في ہذا الباب شيء واللہ أعلم (السنن الکبری للبیہقي، ۷/۴۶۹، رقم: ۱۴۶۸۴، باب ما جاء في النثار في الفرح، ط: بیروت)

    معلوم ہوا کہ چھوہارے لٹانے کی تینوں روایتوں میں شدید ضعف ہے، چنانچہ حضرت گنگوہی رحمہ اللہ نے حدیث کے بارے میں تحریر فرمایا: خرما لٹانے کی حدیث صحیح نہیں، اور اس میں اندیشہ تکلیف حاضرین کا ہے؛ لہٰذا نہ کرے۔ (باقیات، ص: ۲۰، رقم : ۴۴۸) حاصل یہ ہے کہ یہ روایت قابلِ ا ستناد نہیں ہے، اس پر اعتماد کرتے ہوئے نکاح کے موقع پر چھوہارے لٹانے کو سنت نہیں قرار دیا جاسکتا۔

    (۲) جہاں تک نفس عمل کی بات ہے تو چونکہ خوشی کے موقع پر دعوت اور شرینی کی تقسیم مشروع ہے؛ اس لیے اس عمل یعنی نکاح (جو ایک خوشی کا موقع ہے) کے موقع پر چھوہارہ یا کوئی اور چیز لٹانے یا تقسیم کرنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے بہ شرطے کہ حاضرین کو تکلیف نہ ہو؛ البتہ مسجد میں مجلس نکاح منعقد ہونے کی صورت میں لٹانے سے احتراز ہی کرنا چاہیے، بس تقسیم کردینا چاہیے؛ کیونکہ مسجد میں لٹانے کی صورت میں آدابِ مسجد بالعموم ملحوظ نہیں رکھے جاتے جیسا کہ مشاہد ہے جب کہ آدابِ مسجد کا لحاظ ضروری ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند