• معاشرت >> ماکولات ومشروبات

    سوال نمبر: 61494

    عنوان: پرندوں کا شکار کرنا اسلام کی روح سے کیسا ہے ؟ اور یہ کہ اگر شکار بندوق سے کیا جائے اور ذبح سے پہلے ہی پرندہ مر جائے تو کیا حلال ہوگا ؟

    سوال: کیا فرماتے ہیں علماء حق کے پرندوں کا شکار کرنا اسلام کی روح سے کیسا ہے ؟ اور یہ کہ اگر شکار بندوق سے کیا جائے اور ذبح سے پہلے ہی پرندہ مر جائے تو کیا حلال ہوگا ؟ اور اگر حرام ہوگا تو بندوق سے شکار کی حرمت کیوں ہے ؟ نوکدار گولی یا چھرا استمعال کریں ٹیب بھی ؟ نیز یہ بھی فرما دیجئے کہ کون کونسا پرندہ حلال ہے اور حلال پرندہ کی نشانی کیا ہے مزید یہ بھی فرمایئے کہ تیز دھار الے مثلا تیر وغیرہ سے کیا گیا شکار بغیر ذبیح کے حلال ہے یا نہیں ؟مرکز کے لیٹر پر جواب ثبت فرمایئے

    جواب نمبر: 61494

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1164-1164/M=12/1436-U (۱) مباح ہے۔ الصید مباح۔ (مجلة الأحکام العدلیہ: ص۲۴۰ المادة: ۱۲۴۷، آرام باغ کراتشی) (۲) بندوق کا شکار اگر قبل ذبح مرجائے تو وہ حلال نہیں ہے خواہ بندوق کی گولی نوک دار ہو یا بغیر نوک کی ہو؛ کیونکہ شکار گولی کی چوٹ اور کسر سے مرجاتا ہے جب کہ زکاة اضطراری کے لیے کسی دھاردار اور تیز چیز کے ساتھ جرح کرنا شرط ہے جو کہ یہاں مفقود ہے۔ ولا یوٴکل ما أصابہ البندقة فمات بہا؛ لأنہا تدق وتکسر ولا تجرح․ (الہدایة ج۴ ص ۵۱۱-۵۱۲) وفیہا أیضًا: ولا بد من الجرح في ظاہر الروایة لتحقق زکاة الاضطراري وہو الجرح في موضع کان من البدن (المرجع السابق ج۴ ص ۵۰۳، کتاب الصید) والأصل أن الموت إذا حصل بالجرح بیقین حَلَّ وإن بالثقل أو شک فیہ فلا یحل حتمًا أو احتیاطًا، ولا یخفی أن الجُرحَ بالرصاصِ إنما ہو بالاحتراقِ والثقل بواسطةِ اندفاعہ العنیف إذ لیس لہ حدٌّ فلا یحل وبہ أفتی ابن نجیم․ (شامي: ج۶ ص۴۷۱- ۴۷۲، کتاب الصید، ط: سعید) (۳) پرندوں کے سلسلے میں حدیث میں بنیادی اصول یہ بتایا گیا ہے کہ پروندوں میں بھی درندے حرام ہوں گے اور درندوں سے مراد وہ پرندے ہیں جو بنجوں سے شکار کرتے ہیں، حضرت عبد اللہ بن عباس سے مروی ہے: نہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن کل ذي نابٍ من السباع وعن کل ذي مخلبٍ من الطیر․ (الصحیح لمسلم: ج۳ ص ۱۵۳۴، باب إذا غاب عنہ الصید ثم وجدہ، رقم: ۱۹۳۴، ط: دار إحیاء التراث العربی) اس لیے فقہائے کرام بنجے سے شکار کرنے والے اور دوسرے پرندوں پر حملہ آور ہونے والے پرندوں کو حرام قرار دیتے ہیں، جیسے باز وغیرہ، پرندوں میں کوے کی بعض قسموں کے سلسلے میں اختلاف ہے، ”کوئل “ بالاتفاق حرام، اسی طرح نجاست خور ”کوّا“ لیکن وہ ”کوا“ جو دانے اور کھیتوں سے کھاتا ہے اکثر فقہاء کے نزدیک جائز ہے، ان کے علاوہ پرندے جیسے : مرغی، بطخ، فاختہ، کبوتر، گوریے وغیرہ بالاتفاق حلال ہیں۔ وأما المستأنس من السباع وہو الکلب والسنور الأہلی فلا یحل وکذلک المتوحش منہا المسمی بسباع الوحش والطیر وہو کل ذی ناب من السباع وکل ذی مخلب من الطیر ․․․ وما أشبہ ذلک ․․․ وروی أنہ نہی عن کل ذی خطفة ونہبة ومجثمة وعن کل ذی ناب من الطیر والمجثمة روی بکسر الثاء وفتحہا من الجثوم وہو تلبد الطائر الذی من عادتہ الجثوم علی غیرہ لیقتلہ وہو السباع من الطیر فیکون نہیا عن أکل کل طیر ہذا عادتہ ․․․ وما لا مخلب لہ من الطیر فالمستأنس منہ کالدجاج والبط والمتوحش کالحمام والفاختة والعصافیر والقبج والغراب الذی یأکل الحب والزرع والعقعق ونحوہا حلال بالإجماع. (بدائع الصنائع․ ج۵ ص۳۹، کتاب الصید ط: دار الکتب العلمیة، بیروت) (۴) تیز دھار والی چیز مثلاً تیر وغیرہ سے تکبیر کہہ کر ماردیا اور اس کی ضرب سے شکار مجروح ہوکر ذبح سے پہلے مرگیا تو وہ حلال ہے۔ وإذا رمی سہمہ وسمی أکل ما أصاب إن جرحہ أي السہم لأنہ ذبح حکميٌّ․ (مجمع الأنہر: ج۲ ص۵۷۸، کتاب الصید، ط: دار إحیاء التراث ا لعربی)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند