• معاشرت >> ماکولات ومشروبات

    سوال نمبر: 157626

    عنوان: وھیل اور ڈلفن کے مچھلی ہونے کی تحقیق؟

    سوال: (۱) وھیل اور ڈلفن کیا حلال جانور ہیں ؟ کیونکہ سائنسی تحقیق کے مطابق یہ مچھلی نہیں ہیں بلکہ آبی میمل (دودھ دینے والے جانور) ہیں۔ (۲) میں نے کفایت المفتی (9/134) میں دیکھا،لکھا ہے کہ وھیل مچھلی عنبر ہے اور حلت میں کوئی شبہ نہیں تو حضرت مفتی کے اس فتوے کی کیا تو جیہ کی جا سکتی ہے ؟ الا یہ کہ حضرت نے وھیل کو مچھلی ہی سمجھا ہے ۔ (۳) عندالاحناف جو حکم ہے کہ صرف سمک حلال ہے آبی جانوروں میں تو اگر جن جانوروں کے اہل عرب کے عرف کے مطابق کچھ معلوم نہ ہو سکے ( جیسا کہ جھینگا کے متعلق حضرت مفتی تقی عثمانی مدظلہ نے یہ اصول لکھا ہے ) تو ان نئے آبی جانوروں کے بارے میں کس کا قول قولِ فیصل ہو گا ؟ جدید سائنسی ماہرین یا عام عوام کا عرف وغیرہ۔ براہ کرم، رہنمائی فرمائیں۔

    جواب نمبر: 157626

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:381-54/D=5/1439

    کسی آبی جانور کے مچھلی ہونے نہ ہونے کا مدار سائنسی تحقیقات وتدقیقات پر نہیں ہے بلکہ اس سلسلے میں عاد ل ومعتبر مبصرین کی معرفت یا عرف کا اعتبار ہوگا، حضرت اقدس تھانوی قدس سرہ نے ماہی روبیان (جھینگا) کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں فرمایا: اس پر تو سب کا اتفاق ہے کہ سمک بجمیع انواعہ حلال ہے، اب شبہ صرف اس میں ہے کہ یہ سمک ہے یا نہیں، سو سمک کے کچھ خواص لازمہ کسی دلیل سے ثابت نہیں ہوئے کہ ان کے انتفاء سے سمکیت منتفی ہوجائے اب مدار صرف عدول مبصرین کی معرفت پر رہ گیا الخ (امداد الفتاوی: ۴/ ۱۰۳، ۱۰۴)

    فقہی مقالات میں جھینگا کی حلت کی ترجیح کا ذکر کرتے ہوئے موٴلف نے لکھا: ”جواز کا قول اس لیے راجح معلوم ہوتا ہے کہ اس قسم کے مسائل میں شریعت کا مزاج یہ ہے کہ وہ لوگوں کے عام عرف کا اعتبار کرتا ہے فنی باریکیوں کو نہیں دیکھتا“۔ (فقہی مقالات: ۳/۲۲۱)

    وہیل (Whale) اور ڈولفین (Dolphin) دونوں عرف میں مچھلی کے نام سے متعارف ہیں (جیسا کہ مچھلی اور اس کی اقسام سے تعارف رکھنے والوں نے ہمیں بتلایا ہے)

    نیز لغت کی کتابوں میں بھی انہیں مچھلی شمار کیا گیا ہے؛ بلکہ ”وھیل“ کے بارے میں بعض حضرات نے یہ تصریح کی ہے کہ یہ درحقیقت ”عنبر“ مچھلی ہے جس کے بارے میں کتب حدیث میں مصرح ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کا گوشت تناول فرمایا (ابوداوٴد رقم: ۳۸۴۰) الغرض حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب رحمہ اللہ کا فتویٰ اپنی جگہ پر درست ہے اس حوالے سے مزید تفصیل کے لیے فقہی مقالات (ج۳ص۳۱۴تا ۳۱۹) امداد الفتاوی (ج۴ص۱۰۳کراچی) اور فتاوی رحیمیہ (ج۱۰ص۷۷، ۷۸) کا مطالعہ بہت مفید ہوگا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند