>> فرق باطلہ
سوال نمبر: 156030
جواب نمبر: 156030
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:176-189/N=3/1439
صورت مسئولہ میں زید اور علی کے درمیان کمرہ کی کرایہ داری کا جو معاملہ ہوا، وہ شرعاً بالکل صحیح ودرست ہے اور ایسا معاملہ لازم ہوتا ہے اور علی کو کوئی ایسا عذر شرعی لاحق نہیں ہوا کہ زید پر اس عذر کی وجہ سے کرایہ داری کا معاملہ فسخ کرنا ضروری ہو ؛ کیوں کہ صاحب معاملہ علی ہے نہ کہ اس کے اہل خانہ اور علی سے کرایہ کی مقدار اور کرایہ داری کی مدت واضح طور پر طے کرلی گئی ہے؛ اس لیے صورت مسئولہ میں علی پر ضروری ہے کہ وہ کرایہ داری کے معاملہ پر برقرار رہتے کرایہ داری کی مدت مکمل کرے ؛ البتہ اگر زیدصورت مسئولہ میں علی کی درخواست پر اپنی مرضی وخوشی سے کرایہ داری کا معاملہ فسخ کردے تو یہ زید کا علی پر احسان ہوگا اور اس صورت میں زید پر ضروری ہوگا کہ علی کاجمع کردہ سارا پیسہ اسے واپس کرے ، زید کے لیے یہ جائز نہ ہوگا کہ کمرہ کی صفائی کے نام پر یا پرانے کرایہ دار کے سامان کے عوض کے نام پر علی کی جمع کردہ رقم میں کچھ کٹوتی کرے ؛ کیوں کہ کرایہ دار کا سامان زید کی ملک نہیں تھا، نیز وہ علی کو نہیں ملا اور صفائی کا نفع بھی علی کو حاصل نہیں ہوگا، وہ جو کچھ ملے گا، زید کو ملے گا: البتہ اگر علی خود اپنی مرضی سے بہ طور تبرع صفائی کے عوض کچھ دیدے تو اس میں کچھ حرج نہیں؛ بلکہ اسے ایسا کرنا چاہیے ؛ تاکہ اس کی جانب سے بھی زید پر کچھ احسان ہوجائے۔
وأما صفتھا- صفة الإجارة- فھي عقد لازم إذا کانت صحیحة عاریة عن خیار الشرط والعیب والروٴیة عند عامة العلماء ھکذا فی البدائع (الفتاوی الھندیة، کتاب الإجارة، الباب الأول،۴: ۴۱۱، ۴۱۲، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)، وفی الوھبانیة: تصح إجارة الدار المشغولة یعنی: ویوٴمر بالتفریغ وابتداء المدة من حین تسلیمھا (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الإجارة، باب ما یجوز من الإجارة وما یکون خلافاً فیھا، ۹: ۴۰، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، حرر محشی الأشباہ أن الراجح صحة إجارة المشغول ویوٴمر بالتفریغ والتسلیم مالم یکن فیہ ضرر فلہ الفسخ (المصدر السابق، کتاب الإجارة، مسائل شتی ، ۹: ۱۲۹)۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند