• معاشرت >> تعلیم و تربیت

    سوال نمبر: 176997

    عنوان: لڑکیوں کے مدرسے میں مرد اساتذہ كا پڑھانا

    سوال: آپ حضرات سے مدرسة البنات کے متعلق کچھ امور دریافت کرنے تھے ۔ 1۔عام طور پر ہمارے ملک میں جتنے بھی بنات کے مدارس ہیں ان میں سے چند ہی صرف ایسے ہیں جہاں تمام اسباق خواتین پڑھاتی ہیں باقی مدارس میں عام طور یا تو تمام اسباق مرد اساتذہ پڑھاتے ہیں یا چند اسباق مرد حضرات باقی اسباق خواتین پڑھاتی ہیں۔ یہ بات تو یقینی ہے کہ مرد حضرات جو اسباق پڑھاتے ہیں وہ پردے سے ہی پڑھاتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ بات تواتر سے علم میں آرہی ہے کہ مرد اساتذہ طالبہ کی حاضری لینا اسباق سننا اسی طرح ان سے عبارت سننا اس کا عام طور پر معمول ہوتا ہے اسی طرح کچھ جگہوں کے بارے میں یہ بھی پتا چلا کہ طالبہ اپنے اساتذہ کو ہدایا بھی دیتی ہیں یا پھر کھانے کی کوئی چیز بنا کر دی اور بعد میں پوچھ رہی ہیں یہ کیسی بنی اور تعریف ہورہی ہے یہ بھی پتا چلا کہ ہنسی مزاق بھی ہوجاتا ہے اور میرے ایک استاد نے مجھے یہ تک بتایا کہ میں ایک ولیمہ میں گیا وہاں مدرسة البنات کے کچھ اساتذہ بھی تھے وہ آپس میں اس طرح بات کر رہے تھے کہ میں فلاں طالبہ سے شادی کروں گا دوسرے نے کہا کہ میں فلاں سے ۔ اسی طرح راستے میں طالبات کا اپنے اساتذہ کو دیکھنا ۔یہ صرف چند باتیں عرض کردی ورنہ اتنے معاملات ہیں جو تحریر میں نہیں لاسکتے آپ حضرات کو اس سے زیادہ بھی پتا ہونگی۔۔ان باتوں کا کیا حکم ہے اور مرد حضرات کا پردے سے بھی بنات کو پڑھانے کا کیا حکم ہے ۔ایک بزرگ نے یہاں تک فرمایا کہ اتنے برسوں سے طالبات عالمات ہورہی ہیں کہا ابھی بھی اس کی ضرورت ہے کہ مرد حضرات بنات کو پڑھائیں کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ صرف خواتین پڑھائیں جو ایسا نہیں کرسکتا وہ مدرسہ ہی بند کردیں دوسروں کی جنت کی خاطر اپنے آپ کو یا اپنی اولاد کو جھنم کے راستے پر چلانا کونسی دانشمندی ہے۔ 2۔سال کے اختتام پر طالبہ کا اپنے اساتذہ کو جوڑا وغیرہ ہدیہ میں دینا۔ 3۔بعض استاتذہ سے یہ مطالبہ کرنا کہ آپ مرد استاد اور جو باجیاں ہیں ان سب کی دعوت کریں گو کہ دعوت میں کوئی بے پردگی بالکل بھی نہیں ہوگی۔ عام طور پر پڑھانے والے کم عمر ہوتے ہیں اس میں فتنہ کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

    جواب نمبر: 176997

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 579-113T/D=07/1441

    آپ نے جو مفاسد ذکر کیے ہیں، انہی کے پیش نظر لڑکیوں کے مدارس میں مرد اساتذہ کے پڑھانے کی اجازت نہیں دی جاتی، کیوں کہ اگر وہ سامنے بیٹھ کر پڑھائیں تو یہ خلوت بالأجنبیہ کے دائرے میں آتا ہے، اور حدیث میں اس کی ممانعت آئی ہے۔ (بخاری: ۳۰۰۶) اور اگر پردے کی اوٹ سے ہو تو بھی روزانہ اس طرح بیٹھنے سے آپس میں بے تکلفی پیدا ہوتی ہے، اور شیطان وساوس کا دروازہ کھولتا ہے، جن حضرات نے مرد اساتذہ کے پڑھانے کی اجازت دی تو اسی شرط کے ساتھ دی کہ استاذ کا طالبات سے سامنا نہ ہو، آپس میں بات چیت نہ ہو، استاذ الگ کمرے میں بیٹھ کر پڑھائے، وغیرہ؛ لیکن تجربے سے معلوم ہوگیا کہ بہت سی جگہوں پر ان شرائط کی پابندی نہیں ہوتی، اس کا علاج یہی ہے کہ اگر کہیں ضرورت کی وجہ سے لڑکیوں کا مدرسہ چلتا ہو، تو پڑھانے والی خواتین ہی رکھی جائیں، مدرسہ مقامی ہو، اقامتی ہاسٹل اس میں نہ ہو، آنے جانے کا راستہ پر امن ہو، اس لیے اہل مدارس کو اپنے طرزعمل کی اصلاح کی طرف توجہ دینی چاہئے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند