• متفرقات >> دعاء و استغفار

    سوال نمبر: 154144

    عنوان: استخارہ کرنے کا طریقہ

    سوال: مفتی صاحب، کیا ہر نئے کام سے پہلے استخارہ کرنا چاہئے ؟ استخارہ کا اصل طریقہ کیا ہے ؟ کیا کسی مولوی سے استخارہ کروایا جا سکتا ہے ؟اور وہ اسی وقت استخارہ کر کے جواب بھی دیتا ہو تو ایسے استخارہ ہو سکتا ہے ؟

    جواب نمبر: 154144

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1351-1287/sd=12/1438

     استخار ے کے معنی ہیں: خیر طلب کرنا، یعنی: اپنے معاملے میں اللہ سے خیر اور بھلائی کی دعا کرنا، استخارے کے بعد اصل چیز دل کا رجحان ہے ، اس میں خواب کا نظر آنا ضروری نہیں ہے ، جس طرف دل مائل ہو، اُسی میں خیر سمجھنا چاہیے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا تھا: “یا أنس! إذا صممتَ بأمر، فاستخر رَبَّک فیہ سبع مرات، ثم انظر إلی الذی سبق إلی قلبک، فإن الخیرَ فیہ” (شامی: ۲/۴۰۹-۴۱۰، دار إحیاء التراث العربی) حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: استخارے کی حقیقت یہ ہے کہ استخارہ ایک دعا ہے جس سے مقصود طلب اِعانت علی الخیر ہے ، یعنی استخارے کے ذریعے بندہ خدا تعالی سے دعا کرتا ہے کہ میں جو کچھ کروں، اُسی کے اندر خیر ہو اور جو کام میرے لیے خیر نہ ہو،وہ کرنے ہی نہ دیجیے ”۔ الخ (انفاس عیسی: ۲/ ۲۷۵بحوالہ استخارہ کیسے کریں، ص: ۲۳، مطبوعہ لاہور) (مستفاد: شامی: ۲/۴۰۹- ۴۱۰، کتاب الصلاة، مطلب فی رکعتی الاستخارة، ط: دار احیاء التراث العربی، بیروت، امداد الفتاوی: ۲/۵۶۸، رسالہ نافع الاشارة الی منافع الاستخارہ، زکریا، دیوبند) اور استخارہ جیسے خود کیا جاتا ہے ، دوسرے سے بھی کرایا جاسکتا ہے ؛ لیکن بہتر یہ ہے کہ خود استخاہ کیا جائے ، اس لیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا طریقہ جو ثابت ہے ، اُس میں خود استخارہ کرنے کا ذکر ہے اور سوال میں دوسرے سے استخارہ کر کے فورا جواب ملنے کا جو ذکر ، اُس کا اعتبار نہیں ہے ۔استخارہ کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ دو رکعت نفل نماز پڑھی جائے ، اس کے بعد پوری توجہ کے ساتھ یہ دعا پڑھے :

    اللّٰہُمَّ إِنِّیْ اَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ وَاَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ وَاَسْئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ، فَإِنَّکَ تَقْدِرُ وَلاَ أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلاَ أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوْبِ، اَللّٰہُمَّ إِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہٰذَا الْأَمْرَ خَیْرٌ لِیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَعَاقِبَةِ أَمْرِیْ، أَوْ قَالَ عَاجِلِ أَمْرِیْ وَاٰجِلِہفَاقْدُرْہُ لِیْ وَیَسِّرْہُ لِیْ ثُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْہِ، وَإِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہٰذَا الأَمْرَ شَرٌّ لِیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَعَاقِبَةِ أَمْرِیْ أَوْ قَالَ عَاجِلِ أَمْرِیْ وَاٰجِلِہفَاصْرِفُہُ عَنِّیْ وَاصْرِفْنِیْ عَنْہُ وَاقْدِرْ لِیَ الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ثُمَّ رَضِّنِیْ بِہ۔ قَالَ وَیُسَمِّیْ حَاجَتَہ۔ (صحیح البخاری رقم: ۱۱۶۶، سنن الترمذی ۴۰۸، سنن أبی داوٴد ۱۵۳۸)

    ترجمہ:- اے اللہ! میں آپ کے علم کے ذریعہ خیر کا طالب ہو، اور آپ کی قدرت سے طاقت حاصل کرنا چاہتا ہوں، اور آپ کے فضلِ عظیم کا سائل ہوں، بے شک آپ قادر ہیں اور میں قدرت نہیں رکھتا، اور آپ کو علم ہے کہ میں لاعلم ہوں، اور آپ چھپی ہوئی باتوں سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اے اللہ! اگر آپ علم کے مطابق یہ کام (یہاں اس کام کا تصور کرے ) میرے حق میں دینی، دنیوی اور اخروی اعتبار سے (یا فی الحال اور انجام کار کے اعتبار سے ) بہتر ہے ، تو اسے میرے لئے مقدر فرمائیے ، اور اسے میرے حق میں آسانی کرکے اس میں مجھے برکت سے نوازے ، اور اگر آپ کو علم ہے کہ یہ کام (یہاں کام کا تصور کرے ) میرے حق میں دینی، دنیوی اور اخروی اعتبار سے (یا فی الحال اور انجام کے اعتبار سے ) برا ہے تو اس کو مجھ سے اور مجھے اس سے ہٹادے اور جس جانب خیر ہے وہی میرے لئے مقدر فرمادے ، پھر مجھے اس عمل سے راضی کردے ۔دعا پڑھتے ہوئے جب ہٰذا الأمر پر پہنچے تو دونوں جگہ اس کام کا دل میں دھیان جمائے جس کے لئے استخارہ کررہا ہے یا دعا پوری پڑھنے کے بعد اس کام کو ذکر کرے ۔ دعا کے شروع اور اخیر میں اللہ کی حمد وثناء اور درود شریف بھی ملالے ، اور اگر عربی میں دعا نہ پڑھی جاسکے تو اردو یا اپنی مادری زبان میں اسی مفہوم کی دعا مانگے ۔لہذا صورت مسئولہ میں آپ جس امر کے بارے میں بھی استخارہ کریں، استخارے کے بعد دل کے میلان کو دیکھیں، جس طرف دل کا رجحان ہو، اسی میں خیر سمجھیں؛واضح رہے کہ استخارہ کی وجہ سے کسی امر کا کرنا یا نہ کرنا لازم اور ضروری نہیں ہوجاتا ہے ، نیز استخارے کے ساتھ ساتھ اہم امور میں مشورہ بھی مسنون ہے ۔ومنہا رکعة الاستخارة عن جابر بن عبد اللّٰہ قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یعلمنا الاستخارة فی الأمور کلہا … الخ۔ رواہ الجماعة إلا مسلمًا۔ شرح المنیة … ویسمی حاجتہ قال ط: أی بدل قولہ ہٰذا الأمر قلت: أو یقول بعدہ وہو کذا وکذا … وفی الحلیة: ویستحب افتتاح ہٰذا الدعاء وختمہ بالحمدلة والصلاة۔ (الدر المختار مع الشامی / باب الوتر والنوافل ۲/۴۷۰زکریا) ( ل ، ۱۲۹۱/۹۵۵، ۱۴۳۱ھ)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند