• متفرقات >> دعاء و استغفار

    سوال نمبر: 154042

    عنوان: استخارہ کا مسنون طریقہ

    سوال: میں نے ۲۰۱۵ء میں نوکری کے لیے درخواست دی تھی۔ اس نوکری کے لیے میں نے استخارہ کیا تو اس میں اللہ کی رضا آئی تھی۔ استخارہ کا طریقہ ہماری مسجد کے امام صاحب نے بتایا تھا۔ امام صاحب نے مجھے ۶/ پرچی دی تھی، ۳/ پرچی پر لکھا تھا سورہ زلزالہا کی سات نمبر کی آیت (فمن یعمل مثقال ذرة خیرا یرہ) اور ۳/ پرچی پر لکھا تھا سورہ زلزالہا کی آٹھ نمبر کی آیت (ومن یعمل مثقال ذرة شرا یرہ)،امام صاحب نے کہا کہ چھ کی چھ پرچیوں کو اپنے سیدھے ہاتھ کی طرف رکھو پھر دو رکعات نفل استخارہ کی نیت کرو جو بھی حاجت ہے نفل مکمل کرو سلام پھیرو اور ایک پرچی اپنے سیدھے ہاتھ کی طرف سے اٹھاوٴ اور الٹے ہاتھ کی طرف رکھ دو ۔ پھر دو رکعات نفل کی نیت کرو اس طرح تین مرتبہ دو دو رکعات نفل پڑھو اور سیدھے ہاتھ سے ایک پرچی اٹھاوٴ اور الٹے ہاتھ پر رکھ دو، اب آپ کے پاس سیدھے ہاتھ پر جو تین پرچی ہے انہیں ایک ایک کرکے کھولو اگر تین میں سے دو پرچی میں سورہ زلزالہا کی سات نمبر یک کی آیت (فمن یعمل مثقال ذرة خیرا یرہ) آتی ہے اور ایک پرچی میں سورہ زلزالہا کی آٹھ نمبر کی آیت (ومن یعمل مثقال ذرة شرا یرہ) آتی ہو تو اللہ کی رضا ہے کیونکہ دو پرچی میں خیر ہے۔ اگر تین میں سے دو پرچی میں سورہ زلزالہا کی آٹھ نمبر کی آیت (ومن یعمل مثقال ذرة شرا یرہ) آتی ہے اور ایک پرچی میں سورہ زلزالہا کی ساتھ نمبر کی آیت (فمن یعمل مثقال ذرة خیرا یرہ) آتی ہے تو اللہ کی رضا نہیں ہے۔ میں نے ایسے ہی کیا۔ میری دو پرچی میں سات نمبر کی آیت اور ایک پرچی میں آٹھ نمبر کی آیت آئی، تو میں نے اللہ کا نام لے کر نوکری کے لیے درخواست دی تھی، میرے سب ڈاکو منٹ (دستاویز/ اسناد) جمع ہوگئے لیکن ابھی تک انٹرویو کی تاریخ نہیں آئی ہے۔ آپ سے التجا ہے کہ مجھے کوئی دعا بتائیں کہ اللہ میرا یہ کام کرادے۔ میں نے اور بھی کام اس استخارہ کے ذریعہ کیا ہے، مجھے اللہ کی طرف سے بہت مدد ملی، جس استخارہ میں اللہ کی رضا آتی ہے میں وہ کرتا ہوں اور جس میں رضا نہیں آتی وہ نہیں کرتا۔ اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ میں نے اپنے ایک دوست کو اس استخارہ کے بارے میں بتایا تو وہ کہنے لگا کہ یہ طریقہ صحیح بھی ہے یا نہیں؟ تو آپ بتائیں کہ یہ استخارہ کا جو عمل ہے وہ درست ہے یا نہیں؟

    جواب نمبر: 154042

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1343-1291/sd=12/1438

    استخارہ کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ دو رکعت نفل نماز پڑھی جائے ، اس کے بعد پوری توجہ کے ساتھ یہ دعا پڑھے :

    اللّٰہُمَّ إِنِّیْ اَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ وَاَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ وَاَسْئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ، فَإِنَّکَ تَقْدِرُ وَلاَ أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلاَ أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوْبِ، اَللّٰہُمَّ إِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہٰذَا الْأَمْرَ خَیْرٌ لِیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَعَاقِبَةِ أَمْرِیْ، أَوْ قَالَ عَاجِلِ أَمْرِیْ وَاٰجِلِہفَاقْدُرْہُ لِیْ وَیَسِّرْہُ لِیْ ثُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْہِ، وَإِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہٰذَا الأَمْرَ شَرٌّ لِیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَعَاقِبَةِ أَمْرِیْ أَوْ قَالَ عَاجِلِ أَمْرِیْ وَاٰجِلِہفَاصْرِفُہُ عَنِّیْ وَاصْرِفْنِیْ عَنْہُ وَاقْدِرْ لِیَ الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ثُمَّ رَضِّنِیْ بِہ۔ قَالَ وَیُسَمِّیْ حَاجَتَہ۔ (صحیح البخاری رقم: ۱۱۶۶، سنن الترمذی ۴۰۸، سنن أبی داوٴد ۱۵۳۸)

    ترجمہ:- اے اللہ! میں آپ کے علم کے ذریعہ خیر کا طالب ہو، اور آپ کی قدرت سے طاقت حاصل کرنا چاہتا ہوں، اور آپ کے فضلِ عظیم کا سائل ہوں، بے شک آپ قادر ہیں اور میں قدرت نہیں رکھتا، اور آپ کو علم ہے کہ میں لاعلم ہوں، اور آپ چھپی ہوئی باتوں سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اے اللہ! اگر آپ علم کے مطابق یہ کام (یہاں اس کام کا تصور کرے ) میرے حق میں دینی، دنیوی اور اخروی اعتبار سے (یا فی الحال اور انجام کار کے اعتبار سے ) بہتر ہے ، تو اسے میرے لئے مقدر فرمائیے ، اور اسے میرے حق میں آسانی کرکے اس میں مجھے برکت سے نوازے ، اور اگر آپ کو علم ہے کہ یہ کام (یہاں کام کا تصور کرے ) میرے حق میں دینی، دنیوی اور اخروی اعتبار سے (یا فی الحال اور انجام کے اعتبار سے ) برا ہے تو اس کو مجھ سے اور مجھے اس سے ہٹادے اور جس جانب خیر ہے وہی میرے لئے مقدر فرمادے ، پھر مجھے اس عمل سے راضی کردے ۔دعا پڑھتے ہوئے جب ”ہٰذا الأمر“ پر پہنچے تو دونوں جگہ اس کام کا دل میں دھیان جمائے جس کے لئے استخارہ کررہا ہے یا دعا پوری پڑھنے کے بعد اس کام کو ذکر کرے ۔ دعا کے شروع اور اخیر میں اللہ کی حمد وثناء اور درود شریف بھی ملالے ، اور اگر عربی میں دعا نہ پڑھی جاسکے تو اردو یا اپنی مادری زبان میں اسی مفہوم کی دعا مانگے ۔یہ استخارہ کا مسنون طریقہ ہے، سوال میں آپ نے استخارہ کا جو طریقہ ذکر کیا ہے، اس کا حوالہ امام صاحب ہی سے معلوم کریں۔

    ومنہا رکعة الاستخارة عن جابر بن عبد اللّٰہ قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یعلمنا الاستخارة فی الأمور کلہا … الخ۔ رواہ الجماعة إلا مسلمًا۔ شرح المنیة … ویسمی حاجتہ قال ط: أی بدل قولہ ہٰذا الأمر قلت: أو یقول بعدہ وہو کذا وکذا … وفی الحلیة: ویستحب افتتاح ہٰذا الدعاء وختمہ بالحمدلة والصلاة۔ (الدر المختار مع الشامی / باب الوتر والنوافل ۲/۴۷۰زکریا)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند