• عبادات >> احکام میت

    سوال نمبر: 169419

    عنوان: میت کو دفن کرنے کے بعد اجتماعی دعا کرنا کیسا ہے؟

    سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں ؛ ” میت کے جنازہ کے بعد قطار توڑ کر اجتماعی حالت میں دعا کرنے کا حکم کیا ہے؟ اور میت کو دفن کرنے کے بعد اجتماعی دعا کرنا کیسا ہے؟

    جواب نمبر: 169419

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:620-550/sd=8/1440

    نماز جنازہ خوددعا ہے ، اس کے بعد دعا کا اہتمام والتزام عہد رسالت، عہد صحابہ ، عہد تابعین و تبع تابعین کے دور سے ثابت نہیں، حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ میں متعدد جنازے پڑھائے اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ علیہ السلام کے نماز جنازہ پڑھانے کا طریقہ کار، اس کی تکبیرات وغیرہ نقل فرمائیں ؛لیکن انھوں نے جنازہ کے بعد دعا کا معمول نقل نہیں کیا، اگر آپ علیہ الصلاة والسلام کسی ایک جنازے کے بعد بھی دعامانگنے کا اہتمام فرماتے ، تو اتنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کم از کم کوئی ایک صحابی تواس کو ذکر کرتا جبکہ اس بارے میں احادیث طیہ اور آثارصحابہ میں کوئی ایک روایت بھی مذکور نہیں؛ لہذا یہ بدعت ہے جس کا ترک کرنا واجب ہے۔

     لا یقوم بالدعاء بعد صلاة الجنازة؛ لأنہ دعا مرّةً؛ لأن أکثرہا دعاء (البزازیة علی ہامش الہندیة: ۸۰/۴، ط: زکریا) ولا یدعو للمیت بعد صلاة الجنازة؛لأنہ یشبہ الزیادة فی صلاة الجنازة(مرقاة المفاتیح، ۴: ۱۴۹، رقم الحدیث: ۱۶۸۷، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)

    البتہ قبرستان میں میت کی تدفین سے فارغ ہوکر قبلہ رو ہوکر اور ہاتھ اٹھاکر میت کے لیے دعائے مغفرت وغیرہ کرنا جائز ودرست ؛ بلکہ مستحب ہے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ؛لیکن دعا میں کوئی ایسی ہیئت یا طریقہ اختیار نہ کیا جائے کہ کسی دیکھنے والے کو صاحب قبر سے مانگنے کا شبہ ہو۔

    عن عثمان قال: کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم إذا فرغ من دفن المیت وقف علیہ فقال: استغفروا لأخیکم ثم سلوا لہ بالتثبیت فإنہ الآن یسأل، رواہ أبو داود (مشکاة المصابیح، کتاب الإیمان، باب إثبات عذاب القبر ، الفصل الثانی، ص ۲۶، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، وفی حدیث ابن مسعود:رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی قبر عبد اللہ ذی النجادین الحدیث، وفیہ: فلما فرغ من دفنہ استقبل القبلة رافعاً یدیہ ، أخرجہ أبو عوانة فی صحیحہ (فتح الباری، کتاب الدعوات، باب الدعاء مستقبل القبلة، ۱۱: ۱۷۳، ط:دار السلام الریاض)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند