• عقائد و ایمانیات >> دعوت و تبلیغ

    سوال نمبر: 165727

    عنوان: نماز کے کتنی دیر بعد فضائل اعمال اور منتخب احادیث کی تعلیم شروع کی جائے؟

    سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام درج ذیل مسئلوں کے بارے میں؛ (۱) ایک اکیلی اہل سنت و الجماعت (دیوبند مسلک) کی مسجد ہے جہاں ہرروز امام صاحب عصر کی فرض نماز کے فوراً بعد اور دعا سے پہلے پانچ منٹ کا مدرسہ (کتاب) باآواز بلند پڑھتے ہیں، امام صاحب کی آواز اتنی بلند ہوتی ہے کہ تیسری اور چوتھی صف تک جاتی ہے، جو لوگ فرض نماز میں دیر سے پہنچتے ہیں اور امام صاحب کے سلام پھیرنے کے بعد اپنی چھوٹی ہوئی رکعت پوری کرتے ہیں ٹھیک اسی وقت امام صاحب بلند آواز سے پانچ منٹ کا مدرسہ پڑھتے ہیں جس سے باقی نمازیوں کی نماز میں خلل پیدا ہونے کا غالب گمان ہے ، براہ کرم، بتائیں کہ شریعت کی نظر میں یہ عمل کیسا ہے؟ اور ہمیں جماعت کے ساتھیوں کو کیا کرنا چاہئے؟ (۲) یہی حال ہر روز عشاء کی نماز کے بعد بھی ہوتا ہے جب جماعت کے کچھ ساتھی عشاء کی نماز فوراً بعد بلند آواز سے منتخب احادیث اور فضائل اعمال پڑھتے ہیں جب کہ بہت سارے نمازی سنتوں کی نماز ، وتر کی نماز یا نفل نماز اور ذکر میں مشغول ہوتے ہیں، اس تعلیم کے عمل سے بھی نمازیوں کی نماز میں خلل پیدا ہوتاہے ، براہ کرم، بتائیں کہ شریعت کی نظر میں یہ تعلیم عمل ٹھیک اسی وقت اور اسی جگہ کرنا کیسا ہے جہاں باقی نمازیوں کی نماز میں خلل پیدا ہونے کا گمان ہو؟ اور ہمیں جماعت کے ساتھیوں کو کیا کرنا چاہئے؟ (۳)مسجد میں نمازیوں کی نماز سے زیادہ اور ذکر اذکار کرنے والوں کی عبادات سے زیادہ پانچ منٹ کا مدرسہ ، منتخب احادیث یا فضائل اعمال کا با آواز بلند پڑھنے کو ترجیح دینا شریعت کی نظر میں کیسا ہے؟ اور ایسا عمل کرنا جس سے مسجد میں دوسری عبادت کرنے والوں کی عبادت میں خلل پیدا ہو جائے کس گناہ میں شمار ہوگا ؟ اور کیا ایسے عمل کرنے والوں اور اس عمل میں بیٹھنے والوں پر آخرت میں دوسرے کی عبادات میں خلل پیدا کرنے کا وبال ہوگا؟ براہ کرم، اپنی رائے عنایت فرمائیں۔ مفتی صاحب، واضح رہے کہ میں بھی اہل سنت والجماعت (دیوبند) سے تعلق رکھتاہوں اور تبلیغ جماعت کا ہی ایک ساتھی ہوں ، آپ کی ویب سائٹ کا ہر روز مطالعہ کرتاہوں، الحمد للہ، مجھے اس سے بہت فائدہ حاصل ہوا ہے، اوپر لکھے سوال کے پوچھنے کی منشاء صرف اتنی ہے کہ اگر مسجد میں ہم لوگوں سے اگر کوئی غلط ہورہا ہے تو میں آپ کا جواب مسجد کے ذمہ داروں اور جماعت کے دیگر ساتھیوں تک نرمی اور حکمت سے پہنچا دوں اور اپنی اور اپنے دینی بھائیوں کی اصلاح کردوں۔

    جواب نمبر: 165727

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 167-36T/B=2/1440

    نماز کے وقت کوئی بھی ایسا عمل کرنا جس سے نمازیوں کی نماز میں خلل پیدا ہو مکروہ ہے؛ اس لئے امام صاحب یا تو اتنی تاخیر سے کتاب پڑھیں کہ لوگ نماز سے فارغ ہو جائیں یا اتنی آہستہ آواز میں پڑھیں کہ نماز میں خلل پیدا نہ ہو۔

    (۲) عشاء کی نماز کے بعد بھی یہی حکم ہے کہ فضائل اعمال اور منتخب احادیث کی تعلیم سے لوگوں کی سنتوں اور وتر میں خلل پیدا ہوتا ہو تو ایسا کرنامکروہ ہے، جب تمام نمازی نماز سے فارغ ہو جائیں پھر شروع کی جائے۔

    (۳) اس جزء کا جواب اوپر کے جواب سے واضح ہوگیا۔ أجمع العلماء سلفاً وخلفاً علی استحباب ذکر الجماعة فی المساجد وغیرہا ، إلا أن یشوش جہرہم علی نائمٍ ، أو مصلٍ ، أو قاريء (شامی: ۲/۴۳۴، زکریا) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند